احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم! ’’لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون‘‘ زندہ ہو جاتے ہیں جومرتے ہیں حق کے نام پر۔ اﷲ اﷲ موت کو کس نے مسیحا کر دیا۔ شہید احمدیت حضرت مولانا فخرالدین صاحب ملتانی کا آخری پیغام جماعت احمدیہ کے نام ۱۳؍اگست ۱۹۳۷ء کو حضرت مولانا فخرالدین ملتانی نے اپنے چھوٹے چھوٹے بے کس بچوں اور خون کے آنسو رونے والی معذور بیوہ کو خداکے سپرد کرتے ہوئے محض احمدیت کی خاطر جام شہادت نوش فرمایا۔ لیکن رخصت ہوتے ہوئے انہوں نے ایک آخری پیغام جماعت احمدیہ کو دیا جسے قوم رہتی دنیا تک فراموش نہیں کر سکتی۔ شہید کے خون سے ہی قوم کو ثبات ہے۔ آج پھر ان ایمان کو تقویت دینے والے اور روحانیت کو زندہ کرنے والے الفاظ کا اعادہ کرتے ہوئے ان کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں یقین اور ایمان کی مشعل فروزاں رہے اور ابدالآباد تک ایک حق پر قربان ہونے والے مرد مجاہد کا آخری پیغام ہمارے اور ہماری نسلوں کے کانوں میں گونجتا رہے اور وہ باوجود مٹھی بھر ہونے کے باطل کی کثرت سے مرعوب نہ ہوں اور دنیا کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور شوکت ان کی آنکھوں میں نہ جچے۔ مرحوم نے دم توڑتے ہوئے فرمایا کہ میں احمدی ہوں… یا اﷲ احمدیت! میں احمدی ہوں۔ میں احمدی ہوں۔ میں احمدی ہوں۔ میں شہید ہوں اور میرے سینے پر شہادت کا نشان ہے۔ میں شہید ہوں… قادیان والوں کو میرا سلام۔ قادیان والوں کو میرا محبت بھرا پیغام۔ انتقال کرنے سے صرف دو منٹ پیشتر آپ کے والد ماجد نے جو اس وقت موجود تھے۔ کہا: ’’فخرالدین! اب بھی وقت ہے توبہ کرو اور مرزا قادیانی کو چھوڑدو۔‘‘ مگر شہید اعظم نے اپنی انگلی کو ہلایا اور نہایت جوش کے ساتھ فرمایا۔ نہیں، نہیں، ہر گز نہیں۔ اس کے بعد درود پڑھنے لگے۔ آواز کمزور ہونے لگی۔ ایک بے خوف مجاہد کی روح جسد عنصری سے نکلنے کے لئے آخری کش مکش کرنے لگی۔ زبان صرف ایک لمحہ کے لئے متحرک ہوئی۔ کچھ کہنا چاہا۔ مگر کہہ نہ سکے اور آپ کی آنکھیں دیکھتے دیکھتے بند ہو گئیں۔ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نام پرکٹ مرنے والے مجاہد اعظم کے آخری پیغام کو ان لوگوں کے کانوں تک پہنچاتا ہوں جو اپنے پہلو میں ایمان، انصاف اور محبت سے بھرا ہوا دل رکھتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا جن کا شیوہ ہے۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ!