احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
پیشگی آنسو پونچھے جاتے ہیں کہ مردود پڑے رہو۔ میں بھی ثابت قدم ہوں تو بھی ثابت قدم رہو۔ نامردی ومردی قدمے فاصلہ دارد اگر مریدوں کے دل نہ بڑھائے جائیں اور ان کو ہمت نہ دلائی جائے تو مقدمات وغیرہ کے لئے روپیہ کہاں سے آئے۔ ’’نصر من اﷲ وفتح قریب اور فتح اﷲ ونصر قریب‘‘ کا انوکھا تازہ نوبنو الہام ہو ہی چکا ہے۔ اگر یہ الہام مولوی کرم الدین کے مقدمے کے فیصل ہونے اور اس میں ناکام رہنے سے پہلے کا تھا جو بالکل برعکس پڑا اور لے پالک کے ساتھ خود آسمانی باپ کی کمر بھی ٹوٹ گئی۔ لیکن ہم کو باپ بیٹے کے اس ہتھیا ہارنے پر بہت ہی غصہ آتا ہے کیا معنی کہ یہ الہام مطلق فتح کا تھا۔ الہام کا یہ مطلب نہ تھا کہ اس مقدمے میں فتح نصیب ہوگی۔ کیونکہ مقدمات تو بہت سے باقی ہیں۔ ابھی تو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ایسا اندھیر کھاتا تو آسمانی ہائی کورٹ میں ہی نہیں کہ لے پالک کسی مقدمے میں بھی فتح یاب ہو۔ گیلے سوکھے ایک ہی بھائو جلیں اور ایک بھی آسمانی نشان چمکتا ہوا نظر نہ آئے۔ پس مرزا قادیانی ذرا تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں۔ یہ ہمارا ذمہ کہ آخری مقدمے میں مرز اقادیانی ضرور فتحیاب ہوں گے اور آسمانی نشان کا ضرور ظہور ہوگا۔ آسمانی باپ نے یہ الہام نہیں کیا کہ چپت بھی لے پالک کی اور پٹ بھی لے پالک کی۔ ایسا الہام ہونا تو بالکل فطرت کے خلاف ہے۔ دنیا کے معاملات قمار خانہ ہیں جیتا سو ہارا اور ہارا سو مرا۔ ؎ قلب است مقامرزمانہ بگر یزا زین قمار خانہ ۵ … مرزا قادیانی کو بہشت کی ضرورت نہیں مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! الحکم میں آپ فرماتے ہیں ’’ہماری خواہش ہے کہ الٰہی تجلیات ظاہر ہوں جیسے موسیٰ نے ’’رب ارنی‘‘ کہا تھا ورنہ ہمیں تو نہ بہشت کی ضرورت ہے نہ کسی اور شے کی۔ ‘‘ جی بجا ہے مگر موسیٰ علیہ السلام نے دنیا میں رب ارنی کہا تھا یا مرنے کے بعد۔ قرآن میں تو مرنے کے بعد مومنین اور متقین کے لئے جناب باری نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے مگر چونکہ آپ کو دنیا ہی میں حسب فحوائے حدیث شریف جنت کے مزے اور بہاریں ہیں عیش وعشرت ہے۔ الدنیا سجن المومن وجنت الکافر لہٰذا مرنے کے بعد جنت کیوں نصیب ہونے لگی؟ آپ تو یقینا مرتے دم بھی یہی ترانہ گائیں گے ؎