احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ہم متنبہ کرچکے ہیں کہ جب تک مجدد السنہ مشرقیہ سے اصلاح نہ لے تو کوئی الہام شائع نہ کرو۔ ذرا ملاحظہ ہو کہ مکان بھی اور سرائے بھی۔ شاید مکان کچھ اور ہے اور سرائے منارے کے کلس کی نوک کا نام ہے۔ لے پالک کا ایڈیکانگ طاعون تو امن بلکہ خود دار الامان کی بربادی اور دھڑا دھڑی لگا کر اس کو خاک کا تودا بنا رہا ہے اور آسمانی باپ پھر بھی الہام کرتا ہے کہ بیٹا گھبرائو نہیں ہر طرح امن ہے۔ سولی پر چڑھ جائو مولیٰ بھلی کرے گا۔ یہ الہام ہے یا دارالامان کا انہدام، کشتوں کے پشتے اور مردوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ پھر بھی محبت سرائے میں امن ہے تو بے امنی اور بربادی کے شاید ویسے ہی سینگ ہوں گے جیسے خردجال کے سرہیں۔ سنو الہام مذکورہ میں یا تو سرائے حشو ہے یا مکان خوگیر کی بھرتی ہے۔ لہٰذا اصلاح دی جاتی ہے ؎ امن است اندرون محبت سرائے ماب ۴ … آیت قرآن کا صرف عن الظاہر مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! مرزا قادیانی کے ایک حواری جو زندہ پیر کے مجاور بنے بیٹھے ہیں۔ فرماتے ہیں ’’حضرت خلیفۃ اﷲ فی الارض کبھی پسند نہیں کرتے کہ قرآن مجید کی کسی آیت کا صرف عن الظاہر کریں جب تک اس صرف کے لئے قرائن قویہ نہ ہوں ورنہ باب الحاد کا واکرنا ہے وغیرہ۔‘‘ اجی جناب صرف عن الظاہر کیا معنی یہاں تو آیات قرآنی کی ترمیم وتنسیخ ہی کردی یا یوں کہو کہ بالکل اڑا ہی دیا ؎ دہن کا ذکر کیا یاں سر ہی غائب ہے گریبان سے مجاور صاحب تو زندہ پیر کی چوکھٹ پر بیٹھے چراغیاں اور دونے چکھ رکھ رہے ہیں انہیں باب الحاد کے واہونے کی کیا خبر اس کی خبر مجدد السنہ مشرقیہ کو ہے۔ کیا کہنا ہے آپ نے قرائن قویہ کی قید بہت خاصی لگائی۔ یہ مرزائی ہتھکنڈا ہے۔ ہرشخص ہر آیت کی نسبت کہہ سکتا ہے کہ فلاں قرائن سے اس کے معنی یوں نہیں یوں ہیں اور قرینہ عام ہے لفظی نہیں۔ تو ذہنی اختراعی ہی سہی۔ حالانکہ کلام مجید بالکل صاف ہے اس کی شان تبیاناً لکل شے ہے اس کو کسی قسم کے قرینے کی ضرورت نہیں۔ وہ مرزائی قرائن کے خبث سے بالکل پاک ہے۔ تیرہ سو برس کے بعد اب قرآن کریم مرزائی ملحدانہ قرائن کا محتاج ہو معاذ اﷲ۔ حج حرمین شریفین کو نہ جائو۔ لا تلقوا بایدیکم الی تہلکۃ۔ خارجی قرینہ یہ موجود ہے کہ طاعون پھیلا ہوا ہے۔ طوفان سے جہازات غرق اور تباہ ہوجاتے ہیں۔ دوسرا قرینہ شہر قادیان ہے جہاں ایک