احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۲ … مرزائی مقدمات مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! آسمانی باپ نے جو لے پالک پر فریب کا مقدمہ دائر کرنے کا الہام کیا تو وہ دراصل فریب اور دغا کا مفہوم ہی نہیں سمجھا اور نہ اس کو یہ معلوم ہوا کہ برٹش قانون کی اصطلاح میں فریب اور دغا کس کو کہتے ہیں۔ اخبار میں کسی مضمون کے شائع کرنے کا نام فریب نہیں۔ البتہ لائبل ہوسکتا ہے مگر مولوی کرم الدین صاحب نے لائبل بھی نہیں کیا۔ فوجداری کیا معنی یہ مقدمہ تو دیوانی میں بھی نہیں چل سکتا۔ کیونکہ دیوانی میں حرجے کی نالش ہوتی ہے اور ہم نہیں سمجھ سکتے کہ مولوی فیضی صاحب کے نوٹوں کے متعلق جو مضامین سراج الاخبار میں شائع ہوئے ان سے کسی کا کیا حرج ہوا۔ مرزا قادیانی کو تو بہرنہج فائدہ ہی ہوا کیونکہ مقدمات کے نام سے چندہ بٹورا گیا۔ گرم بازاری ہوئی۔ شہرت ہوئی۔ ایسی چکھویتوں کے اینٹھنے کا موقع تو خدادے۔ ہم نے دغا اور فریب کے مقدمات کو بہت کم سرسبز ہوتے دیکھا ہے۔ اس میں بڑا پوائنٹ کسی شخص کو خلاف واقع یاخلاف صداقت امور کا باور کرادینا ہے۔ اس مقدمہ میں دغا کی کونسی بات باور کرائی گئی۔ مرزائی ایسے ننھے نہ تھے کہ دغا اور فریب میں آجاتے۔ ان کا گرو تو فریب ودغادے کر دنیا کے کوڑے کررہا ہے۔ دیکھو دغااس کو کہتے ہیں کہ ایک شخص سے پانچ سو روپیہ اس لئے پھٹکارے کہ میں تم کو آسمانی باپ سے سال جیسا پورا بیٹا دلوا دوں گا۔ یہ ان نیچرل دغا اورفریب ہے۔ کیونکہ بیٹا دلوانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں۔ اگر اس ارتکاب دغا میں نالش دائر کی جاتی تو بروزی صاحب جیل خانے کی ہوا کھاتے نظر آتے۔ کسی بات کی پیشینگوئی کرنا صاف کانشنس گلٹ (خطاء ارادی) ہے کیونکہ مرزا قادیانی اپنے کانشنس میں خوب جانتے ہیں کہ میں غیب دان نہیں ہوں۔ علیٰ ہذا جیسا کہ ہمارے فاضل نامہ نگار نے لکھا کہ لوگوں سے براہین احمدیہ کی قیمت لے کر ڈکارگئے اور کتاب ندارد۔ اگر دغا کے ایسے ہی مقدمات دائر ہواکریں تو مرزا قادیانی کا مارے مقدمات کے پلاسٹر بگڑجائے اور بروزیت اور موعودیت سب بھول جائیں مگر انسان کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا دوسروں کی آنکھ کا تنکا نظر آتا ہے۔ (ایڈیٹر) ۳ … مرزائیوں کا مقدمہ سیالکوٹ میں ابوعبداﷲ رفیع اﷲ! ہمعصر اہلحدیث کا نامہ نگار لکھتا ہے کہ ۹،۱۰؍فروری ۱۹۰۴ء کو مقدمہ مسجد سیالکوٹ کی تاریخ