احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
دخل کر سکیں۔ اسی خوف کی وجہ سے مظلوم باشندوں کی آواز دب جاتی ہے اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں جبراً پابند رہتے ہیں۔ ان حالات میں شہری حقوق کی حفاظت بھی حکومت کے فرائض میں داخل ہے۔ وہ ربوہ کو کھلا شہر قرار دے کر ربوہ کے مکینوں کے حقوق ملکیت کا مناسب انتظام کرے اور قطعی طور پر ان کو حقوق دئیے جائیں تاکہ وہ ربوہ کے ظالموں سے حقیقی نجات حاصل ہو اور وہاں کے لوگ حکومت پاکستان کے شہری کی حیثیت سے آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ ہم حکومت پاکستان سے پوری توقع رکھتے ہیں کہ ان تمام کو پیش نظر رکھ کر ٹھنڈے دل سے اس پر سوچ بچار کر کے مظلوم کی دادرسی کے لئے مناسب اقدام کر کے اور تمام مشکلات کو دور کرے۔ تاکہ ایسی فرعونیت کا خاتمہ ہو سکے۔ جو درپردہ حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ پس اے خدا تو ہماری بے بسی اور بے یارومددگاری کو خوب جانتا ہے۔ تو آپ ہی مظلوموں کی حفاظت کر۔ آمین! سب طاقت اور توفیق اس قادر مقتدر خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس ایک ہی سہارے کا امیدوار ہوں۔ میری دعا ہے کہ اس کتابچہ کو جس مقصد کے لئے پیش کیاگیا ہے اس کے مفید نتائج برآمد ہوکر ظلم وستم کا دور دورہ بند ہو اور صحیح معنوں میں ربوہ میں حکومت پاکستان کا قانون رائج ہو۔ پاکستان پائندہ باد! گر قبول افتد زہے عزو شرف خدم ملت: محمد مظہرالدین ملتانی ربوائی مظالم کا خونی روزنامچہ مذہب کی تاریخ خاک وخون سے لتھڑی پڑی ہے۔ اس وقت سے لے کر جب ھابیل نے قابیل کو قتل کیا اس قدر خون بہایا گیا ہے کہ اگر اسے جمع کیا جائے تو ساری دنیا کو گلرنگ کرنے کے لئے کافی ہے۔ گاہے ماہے اس کشت وخون، قتل وغارت اور معصوم جانوں کے اتلاف کو روکنے کے لئے آوازیں اٹھتی ہیں۔ قلم جنبش میں آتے ہیں۔ بے کسوں کی آہیں مظلوموں کی چیخیں مہذب معاشرے کو بیدار کرتی ہیں۔ مگر وہ پھر کروٹ بدل کر سو جاتا ہے۔ گویا یہ بیداری بھی نیم خوابی بلکہ گراں خوابی کی ہی ایک شکل ہے۔ یورپین سوسائٹی میں اگر ’’بلیک ہول ڈے‘‘ کا نام لیا جائے تو ہر آدمی شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ربوہ کی کوکھ سے ہر روز نت نئے