احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ہوتا ہے۔ اور اپنی طرف سے دعویٰ کرتا ہے کہ اسلام کی صداقت کو ہم ظاہر کرتے ہیں۔ ہم نے غور سے اس رسالے کے مضامین پڑھے۔ ایڈیٹر کے مضامین زیادہ تر اسی قسم کی ناگفتہ بہ خوشامد اور اپنے پیر کی نفرت انگیز بھٹہ سے بھرے ہوتے ہیں۔ جن کو صحیح مذاق آدمی نہ بلحاظ عبارت کے اور نہ بلحاظ خیالات کے پسند کرسکتے ہیں جو وعظ یا لیکچر مرزا قادیانی کے چھپتے ہیں ان میں تکرار بے انتہا اور طول بلا ضرور ہوتا ہے۔ اور کوئی نئی بات ایسی نہیں ہوتی جو اخلاق کی معمولی کتاب مثلاً گلستان، انوار سہیلی یا اخلاق محسنی میں بہتر نہ مل سکتی ہو جو ان کا ادعائے شخصی ہے۔ اس سے ہم کو کچھ تعلق نہیں۔ اس لئے کہ ایک اصلاحی رسالہ کے لئے اس بحث میں پڑنا فضول ہے۔ کہ زید کا بھیجا برا ہے یا عمرو کا پتا۔ الغرض یہ اخبار بھی نہ مذہبی اصلاح کا کام دے سکتا ہے نہ قومی رفاہ کا۔ ۶ … قسمت کے دھکے ہم عصر مولانا شوکت اﷲ میرٹھی! ایک ہم عصر لکھتا ہے ہم مرزا قادیانی سے ان کی زار حالت پر سچی ہمدردی کرتے ہیں۔ ان کی پژمزدگی اور مایوسی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ وہ بے چارے جہاں جاتے ہیں دھکے دے کے نکالے جاتے ہیں۔ واقعی حضور انورa کے دروازہ سے جس نے منہ موڑا جس دروازہ پر گیا اس کی عزت نہ ہوئی۔ پہلے آپ نے عیسائیوں کا آسرا ڈھونڈا اور کہا میں مثیل عیسیٰ ہوں۔ مجھے اپنے ہاں جگہ دو۔ انہوں نے نہایت درشتی اور سختی سے کہا کہ جدھر سے آپ تشریف لائے ہیں سیدھے چلے جائیے۔ بے چارہ مایوس وسرگرداں مسلمانوں کے دروازہ کی کھٹکھٹائی کہ میں مہدی ہوں اور تمہارا سہارا دیکھ کے آیا ہوں۔ میری مدد کرو۔ اس کا جواب مرزا قادیانی کو وہی ملا جو عراقی کو اہل حرم نے دیا تھا ؎ بطواف کعبہ رفتم بحرم رہم نداوند تو برون درچہ کردی کہ درون خانہ آئی اب چاروں طرف نظر اٹھا اٹھا کے دیکھنے لگا کہ کہاں جائوں؟ اور کس کا سہارا ڈھونڈوں؟آخر بہزار پریشانی صنم خانہ میں پہنچے اورصنم خانہ والوں سے کہا میری مدد کرو اور مجھے کرشن کا اوتار سمجھو۔ مگر یہاں مرزا قادیانی کی قسمت عراقی سے بھی بدتر نکلی۔ عراقی کے لئے تو صنم خانہ کا دروازہ کھول دیا تھا اور صنم خانہ والوں نے غل مچا دیا تھا کہ آئو آئو تم ہمارے خاصوں میں سے ہو۔ مگر یہاں بھی مرزا قادیانی کو دھکے ملے۔