احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
رہے ہیں۔ یعنی اس کی عمر باون سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ جب وہ باون سال کے اندر قدم دھرے گا تب اسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقاء ہوگا۔‘‘ (تذکرہ ص۱۸۵،۱۸۶ طبع دوم) نام نہاد خلافت برادران! گو مرزامحمود احمد کی پیدائش ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی۔ تاہم اﷲتعالیٰ کی نظر میں ان کی پبلک اور جماعتی زندگی کا آغاز ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ء کو ہوا۔ جب وہ نام نہاد خلافت کی گدی پر بیٹھے اور کھلے بندوں عامتہ المسلمین کو عموماً اور اپنی جماعت کو خصوصاً گمراہ کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مذکورہ بالا وحی میں اسی عمر کی طرف اشارہ کر کے یہ پیش کی گئی کہ ایک خاص شہرت کا آدمی جو اپنے اعمال وکردار کے لحاظ سے اس کا مصداق ہے۔ (کوئی معمولی آدمی ہرگز ہرگز مراد نہیں لیاجاسکتا) وہ باون سال کے اندر قدم دھرنے کے بعد یعنی اس معینہ سال کے اندر اندر ہی راہی ملک بقاء ہوگا۔ چنانچہ دیکھ لو کہ مارچ ۱۹۱۴ء کے بعد مارچ ۱۹۶۵ء میں اکاون سال ہوئے اور سال باون ختم ہونے میں ابھی چارماہ اور چھ دن باقی تھے کہ میاں صاحب فوت ہوگئے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار! پوپ ازم چاہئے تو یہ تھا کہ احباب جماعت ربوہ عموماً اور ان کا خاندان خصوصاً اس سے عبرت حاصل کرتا اور تلافی مافات کے لئے بارگاہ ایزدی میں سر جھکا کر اور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ یہ لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور پوپ ازم کے تحفظ اور نام نہاد خلیفہ ثالث کے لئے ایک دفعہ پھر حدیث النفس ’’رؤیا کشوف‘‘ کا سہارا تلاش کیا جارہا ہے۔ حالانکہ مرزاناصر احمد کے خلیفہ بنائے جانے کی گذشتہ گیارہ سالہ مساعی بلکہ سازش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کیونکہ ہم نے ۱۹۵۶ء میں ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا تھا کہ مرزامحمود احمد نے فتنہ منافقین کا سارا ڈھونگ اپنے بڑے لڑکے مرزاناصر احمد کو اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لئے رچایا ہے۔ ورنہ نہ ہم منافق تھے اور نہ ہی حقیقت میں کوئی فتنہ تھا۔ جب فراست مؤمنانہ کے ذریعہ ہم نے سالہا سال پہلے میاں ناصر احمد کے خلیفہ بنانے کی پیش گوئی کر دی اور آپ نے پوری پیش بندی کر کے انہیں ’’پیر صاحب‘‘ بنادیا تو اب خوابوں کا سہارا چہ معنی دارد؟ اس ضمن میں ہمارے ٹریکٹ ’’حقیقت کا اظہار‘‘، ’’جماعت احمدیہ ربوہ کے فہمیدہ اصحاب کے نام‘‘، ’’مرزامحمود احمد ہوش میں آؤ‘‘ اور ’’دور حاضر کا مذہبی آمر‘‘ وغیرہ کے صفحات ملاحظہ فرمائیں۔ خاص طور پر ٹریکٹ ’’بوجھو تو جانیں‘‘ پڑھنا ضروری ہے۔