احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ان کو آگھیرا۔ ان کی ایک چہیتی بیوی انہی دنوں فوت ہوئی۔ تین سال بعد بمثل ڈوئی اپنے شہر قادیان سے نکالے گئے اور مرزاقادیانی کی وہ پیش گوئی پوری ہونی شروع ہوئی جس میں خداتعالیٰ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ ’’ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا فہم مغرقون وعد علینا حق‘‘ اور جس کی تشریح کرتے ہوئے خود مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’میرے خیال میں یہ الہام ہماری جماعت کے بعض افراد کی نسبت ہے جو دنیا کے عموم میں حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اور دین کی فکر سے لاپرواہ ہیں۔ گویا خدائے تعالیٰ مجھے ہدایت فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے دعا مت کر، ان کی شفاعت مت کر۔ جیسا کہ ان کا دین مرگیا۔ ان کی دنیا بھی مرے گی۔ ظاہر ہے کہ دعا اور شفاعت دوستوں کے لئے ہوتی ہے۔ نہ کہ دشمنوں کے لئے۔ پس اس قرینہ سے میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ الہام خاص دوستوں کے لئے ہے اور ایک بڑے عذاب سے ان کو ڈرایا گیا ہے۔ ممکن ہے وہ عذاب دوسروں کے لئے بھی ہو (یعنی قادیان سے نکالے جانے کا واقعہ) مگر ایسے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے جو بظاہر ایسی جماعت میں شامل ہیں۔ مگر ان کی حالت دنیا پرستی کی ہمارے اصول کے خلاف ہے۔‘‘ (بدر مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۵ء، ملفوظات، تذکرہ) گویا اس الہام کو پورا کرتے ہوئے وہ قادیان سے بھاگ آئے اور یہ عذاب دوسرے لوگوں پر بھی وارد ہوا۔ پھر ۱۹۴۸ء میں ڈاکٹر عبداللطیف جو میاں محمود احمد کے ہم زلف تھے۔ انہوں نے ان پر جنسی بے راہ روی کا الزام لگایا اور جماعت سے الگ ہوگئے۔ ۱۹۵۴ء میں تحقیقاتی عدالت کے سامنے میاں صاحب اپنے سابقہ خود ساختہ عقائد سے منحرف ہوگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کی بدولت خدائی وعدہ قطع وتین پورا ہوگیا اور اسی حملہ کے بعد میاں صاحب ۲۶؍فروری ۱۹۵۵ء کو فالج کا شکار ہوئے اور بقول مرزاقادیانی ایسے عذاب کا شکار ہوگئے۔ جس میں جانبری کے آثار تو کیا ان کی ہلاکت واقع ہوگی اور ۷؍نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی رات کو واصل جہنم ہوکر مرزاقادیانی کی اس تحریر کو ثابت کر گئے۔ مرزاقادیانی نے (اربعین ص۳،۲۳) پر لکھی ہے: ’’لیکن میری مخالفت کے لئے وہ قرآن شریف کے اس اصول کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے کہ میں خدا کا نبی یا من اﷲ ہوں جس سے خدا ہمکلام ہوکر بندوں کی اصلاح کے لئے وقتاً فوقتاً حقیقتیں اس پر ظاہر کرتا ہے اور دعویٰ پر بائیس یا پچیس برس گزر جائیں یعنی وہ میعاد گزر جائے جو آنحضرتﷺ کی نبوت کی میعاد تھی اور وہ شخص اس مدت تک فوت نہ ہو اور نہ قتل کیا جائے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ شخص سچا نبی یا سچا رسول یا خدا کی طرف سے سچا مصلح اور مجدد ہے اور حقیقت میں خدا اس سے ہم کلام ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کلمۂ کفر ہے۔‘‘