احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
ربوہ خود ہی اس کے سپہ سالار ہوتے ہیں اور آپ ہی کی زیرہدایت وہ تنظیم پنپتی ہے۔ خود خلیفہ فرماتے ہیں: ’’مجلس شوریٰ ہو یا صدر انجمن احمدیہ، انتظامیہ ہو یا عدلیہ، فوج ہو یا غیرفوج، خلیفہ کا مقام ہر حال سرداری کا ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ یکم؍ستمبر ۱۹۳۴ء) ’’انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجمن کے لئے رہنما بھی ہے اور آئین سازی وبحث کی تعین کے لحاظ سے وہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے لئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کر لئے تو وہ اس کا بھی سردار ہے اور اس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۳۸ء) حکومتیں اور قومیں مجھ سے ڈرتی ہیں الغرض خلیفہ ربوہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا ہر حکم جماعت کے ممبروں کے نزدیک آخری حرف کی حیثیت رکھتا ہے۔ خلیفہ کے ادنیٰ اشارے پر اپنی جان ومال، عزت وآبرو قربان کردینا عین سعادت سمجھتے ہیں اور ان کی کمائی کا اکثر حصہ خلیفہ کی آتش حرص کو بجھانے کے کام آتا ہے۔ خلیفہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں مبلغ بھیجے ہوئے ہیں۔ وہ خلیفہ کے بطور سفیر کے ہیں۔ خلیفہ کی C.I.D خلیفہ ربوہ لاکھوں روپے گورنمنٹ کی کرنسی سے حاصل کر کے بیرونی ممالک میں اپنی من مانی کارروائیوں کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ کبھی مبلغوں کی تنخواہوں کا عذر تراشتے ہیں۔کبھی عبادت گاہوں کی تعمیر کا ڈھنڈورہ پیٹ کر لاکھوں روپیہ فارن کرنسی سے لئے جاتے ہیں اور خرچ اپنی مرضی سے کیاجاتا ہے۔ بالآخر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے لئے وہ عبادت گاہیں تیار ہوتی ہیں ان کا چندہ کہاں جاتا ہے۔ خلیفہ ربوہ خود کہتے ہیں کہ حکومتیں ملک اور قومیں مجھ سے ڈرتی ہیں۔ خلیفہ اپنے کارخاص یعنی (C.I.D) کے ذریعہ مخفی راز معلوم کرتے ہیں۔ ان کی اپنی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، فوج اور بینک ہے۔ پس حکومت پاکستان کا ریاست ربوہ سے سہل انگاری برتنا ملک وملت سے غداری کے مترادف ہے۔ ربوہ میں کسی احمدی کو اجازت حاصل کئے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ اب جو بھی احمدی ربوہ میں آتا ہے وہ اپنے حلقہ کے پریذیڈنٹ یا امیر کی تصدیق لاتا ہے۔ یہ بات صرف ربوہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تقسیم ہند سے پہلے یہی حکم قادیان کے متعلق تھا کہ جو