احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
حکومتوں میں نہیں پھیل سکتا۔ اس لئے خدا نے چاہا ہے کہ ان کی جگہ اور حکومتوں کو لے آئے تاکہ اس سلسلہ حقہ کے پھیلنے کے لئے دروازے کھولے جائیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۴ء) خلیفہ صاحب اور اکھنڈ ہندوستان خلیفہ ربوہ تقسیم ہند پر گریہ زاری کرتے ہوئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ہوں فرماتے ہیں: ’’ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوتے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہو جائے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۴۷ء) پھر فرمایا: ’’بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیروشکر ہوکر رہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۴۷ء) ان حوالہ جات سے خلیفہ ربوہ کے جذبات کی تصدیق اور ان کی نیت کی عکاسی ہوتی ہے اور وہ اکھنڈ ہندوستان کے حامی ہیں۔ اب جب کہ اپنی تمناؤں اور امیدوں کو پاش پاش ہوتے دیکھا تو پھر شاطر سیاست سے ایک سیاسی پنیترا بدلا کہ وہ یہ کہ مسلمانوں میں تشتت وافتراق واختلاف وانتشار کی آگ بھڑکانے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے استعمال کئے۔ پس میں حکومت کو اس بات سے آگاہ کر دینا فرض اوّلین سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ ربوہ کے سیاسی عزائم کا محاسبہ کرے اور اس کے نظام کو سمجھنے کی پوری کوشش کرے۔ خلیفہ نے اپنی جماعت کو دنیا کا چارج سنبھالنے اور حکومت پر قبضہ کرنے اور اپنی ذاتی اغراض پوری کرنے کے لئے جماعت کی باقاعدہ تربیت کی اور اس کو شعوری اور غیرشعوری طور پر ابھارتے رہے۔ چنانچہ خلیفہ فرماتے ہیں: ’’اس وقت اسلام کی ترقی خدوند تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔یاد رکھو کہ سیاست اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس جب تک ہم اپنے نظام حکومت کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍جنوری ۱۹۳۷ء) حکومت اور ملک فتح کرنا ’’یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے حکومتوں اور ملکوں کو فتح کرنا بند کر دیا گیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۳۷ء) خلیفہ فیلڈ مارشل کے روپ میں اسی طرح خلیفہ ربوہ کے ہاں جو بھی تنظیم مختلف ناموں سے معرض وجود میں آئی۔ خلیفہ