احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
سے لگایا۔ تھپکی دی اور کہا کہ جب تک تمہارا گرو زندہ ہے فکر نہ کرو۔ خلافت کی لکشمی دیوی ضرور تمہارے نکاح میں آئے گی۔ بس پھر کیا تھا پالتو مولوی نغمہ سرائی وقصیدہ خوانی پر مامور ہوئے۔ شاطر سیاست نے اسلامی شوریٰ کو منسوخ کیا کہ اس سے فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ اپنے آقایان ولی نعمت کے خود ساختہ پاپائی طریق انتخاب کو اپنایا۔ اپنے خاندان کے پیدائشی گداگروں وظیفہ خور صحابیوں اور بیرون ملک بھیجے جانے والے کمیشن ایجنٹوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ مگر ملک میں کام کرنے والے مبلغین ووٹ سے بھی محروم رہے۔ کیونکہ وہ واعظین منبر ومحراب کے ایرانی مزاج سے بخوبی واقف تھے۔ اس پر بھی چین نہ آیا تو سماجی ومعاشی بائیکاٹ کا ہتھیار آزمایا گیا۔ پہلے ساری دنیا کو کافر کہہ کراعزہ واقرباء سے مصاہرت ومناکحت کے رشتے توڑ کر انہیں مسلم معاشرہ سے الگ کیاگیا اور کلیتہً جماعتی بنادیا گیا۔ ان سے چندہ بھی لیا اور انہیں دھمکایا بھی اور اب بائیکاٹ کر کے انہیں اس مخصوص معاشرہ سے علیحدہ کیا تو ان کے لئے عرصہ حیات تنگ ہوگیا۔ لیکن بایں ہمہ وہ مقابل پر ڈٹ گئے۔ اب ’’پتاجی یرکاؤ ورنہ یرک جاؤ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے چپ سادھ بیٹھے اور ایک خواب بنائی کہ ایک نور میرے اندر سے نکل کر پہلے ناصر کے اندر پھر منور اور پھر ظفر اﷲ خاں کے اندر گھس گیا ہے۔ ظفر اﷲ کا ذکر تو برائے وزن بیت تھا کہ اس عرصہ میں راہی ملک عدم ہوجائے گا۔ اصل مقصد لوگوں کی حفاظت تھی۔ کوہستان راولپنڈی نے اداریہ لکھا۔ ’’بلی کو چھچھڑوں کے خواب۔‘‘ مگر الفضل نے حسب عادت تردید ضروری خیال کی۔ مگر دشمن کے اندازے دوست اور مریدوں کی تاویلیں غلط ثابت ہوئیں اور مرزاناصر احمد ۸/۹؍نومبر کی درمیانی رات کو یکدم روحانی آدمی بن گیا اور سارے حرام کے بکرے اور فیروز دھوبی کی بددعائیں ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئیں۔ اب پھر خوابوں کا دورہ جماعت کو پڑا اور بشارات ربانیہ کا نزول شروع ہوگیا۔ طالمود کے روایتی بیل کا کشف آکسن خلیفہ پر صادق آگیا اور کسی مرید نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ یہود تو پہلے مسیح کو وار پر لٹکا چکے ہیں۔ وہ دوسرے کے پوتے کے بارہ میں کسی طرح پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ خلیفہ جی نے دیکھا کہ بیداری کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور ان کے کاردگر کی داستانیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ کیا کریں۔ پرانی Conditioning کام آئی۔ جماعت کو سیاسی بالادستی اور تسلط کی خوابیں سنا سنا کر ان سے پیسہ بٹورنا اور ان کا خون نچوڑنا شروع کیا۔ پی، پی، پی کی حمایت کی گئی۔مگر جہاں خلیفہ نے اپنا مقدس ووٹ ڈالا تھا۔ وہاں پیپلز پارٹی ہار گئی۔