احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
نام اور کلیموں کے ممبر تک مہیا کروں گا۔ اس طرح وہ تمام دھاندلیاں منظر عام پر آجائیں گی جن کے ذریعہ کروڑوں روپیہ کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن باوجود بارہا درخواست کے حکومت پاکستان نے اس طرف سردست توجہ نہیں فرمائی۔ میرے خیال میں اگر حکومت پاکستان صمیم قلب سے اس نشاندہی پر غور فرمائے تو یقینا کروڑہا روپیہ کی جائیداد نہ صرف واپس لے سکیں گے بلکہ ان کے نامناسب ہتھکنڈوں سے بخوبی روشناس ہو جائیں گے۔ میاں صاحب موصوف کا اشتہار مندرجہ ذیل ملاحظہ فرماویں۔ محترم صدر مملکت، وزیراعظم پاکستان اور آراکین قومی اسمبلی کی خاص توجہ کے لئے گذارش ہے کہ خاکسار امیرالدین تقسیم ملک سے قبل ایک صاحب حیثیت آدمی تھا اور تیرہ ہزار روپے کے قریب سالانہ انکم ٹیکس ادا کرتا تھا۔ تقسیم ملک سے قبل میرا کاروبار آسام میں تھا۔ جب ملک تقسیم ہوا تو میں قادیان آگیا اور دو سال تک وہاں بطور درویش رہا۔ پھر ۱۹۴۹ء میں پاکستان آگیا۔ جماعت احمدیہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے میں آپ کی توجہ ان دھاندلیوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جن کے ذریعے کروڑوں روپیہ کی جائیداد پر جماعت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور وہ لوگ جو تقسیم ملک سے قبل آسودہ حال تھے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور ان بیکسوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ۱… صدر انجمن احمدیہ قادیان ایک رجسٹرڈ باڈی ہے۔ تقسیم ملک سے قبل اس کی جائیداد ملک کے مختلف علاقوں میں تھی۔ تقسیم کے بعد ناصر آباد، محمود آباد، شریف آباد، کریم نگر، فارم تھرپارکر سندھ کی زمین پاکستان میں آگئی۔ ہمارے خلیفہ صاحب نے پاکستان میں ایک نئی انجمن کی داغ بیل ڈالی اور اپنے اثر ورسوخ سے کام لے کر یہ زمین اپنے صاحبزادوں اور اس انجمن کے نام منتقل کروالی اور جو انجمن قادیان میں تھی اس نے وہاں کی تمام جائیداد بھارتی حکومت سے واگذار کروالی۔ موجودہ خلیفہ کے چھوٹے بھائی مرزاوسیم احمد اسی مقصد کے پیش نظر وہاں ٹھہرائے گئے تاکہ دونوں ملکوں کی جائیداد ہتھیائی جاسکے۔ خاکسار موجودہ خلیفہ کے چچا بشیراحمد ایم۔اے کے نوٹس میں یہ بات لایا کہ جماعت کے بعض افراد بوگس کلیم دے کر بڑی بڑی جائیدادیں قبضہ میں کر رہے ہیں۔ اس وقت تو وہ خاموش رہے۔ مگر جب حالات ٹھیک ہوگئے تو وہ میرے مخالف