احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایک پمفلٹ لکھا تھا۔ جس میں مخفی درمخفی حقائق کو احسن طریق سے منظر عام پر لائے گئے۔ ہدیہ ناظرین ہے۔ ۲؍دسمبر ۱۹۳۸ء کے خطبہ میں جو ۸؍دسمبر کے ’’الفضل‘‘ میں چھپا ہے۔ جناب میاں صاحب نے حسب معمول سورہ فاتحہ کی تفسیر کی جس کا عنوان ہے۔ ’’شیخ عبدالرحمن مصری کی نہایت ہی گندی گالیاں اور مولوی محمد علی صاحب‘‘ میرا قصور صرف اس قدر ہے کہ ہائیکورٹ کے ایک مطبوعہ فیصلہ کی بناء پر جس میں میاں صاحب کے خلاف ان کے ایک سابق مرید کے خطرناک الزامات درج تھے۔ خطبہ جمعہ میں میں نے یہ کہا تھا کہ وہ قادیان جس کی شہرت مرزاقادیانی کے زمانے میں راست بازی اور پاکیزگی کی وجہ سے تھی۔ آج اس کی دوسری قسم کی شہرت دنیا میں پھیل رہی ہے۔ جناب میاں صاحب نے اس پر بہت اظہار غیظ فرمایا ہے۔ مگر جو امر بہت قابل افسوس ہے۔ وہ یہ ہے کہ میاں صاحب کی یہ کوشش ہے کہ وہ ثابت کریں کہ مرزاقادیانی کے زمانے میں بھی قادیان کی شہرت نیکی اور راست بازی کی وجہ سے نہ تھی اور اس زمانے میں دشمن تو ایک طرف رہے۔ مرزاقادیانی کے مرید بھی نعوذ باﷲ من ذالک مرزاقادیانی پر ایسے ہی الزام لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج میاں صاحب کے مریدان پر لگارہے ہیں۔ سبحانک ہذا بہتان عظیم! نہیں بلکہ وہ اس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر رسول اﷲﷺ کو بھی نعوذ باﷲ من ذالک! ایسے ہی الزام بات کا مورد ٹھہراتے ہیں۔ میاں صاحب کو اپنی بریت کا اب یہی ایک طریق نظر آتا ہے کہ وہ راست بازوں کو بدنام کریں۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ بعض بدباطن دشمن ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بلاوجہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ لیکن پرانے زمانے کے احمدیوں اور غیراحمدیوں دونوں سے کوئی دریافت کر لے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ قادیان میں لوگ آتے تھے تو وہ مرزاقادیانی کے دشمنوں سے مل کر آپ کے حالات دریافت کرتے تھے اور تب بیعت کرتے تھے جب دشمنوں کو بھی آپ کی نیکی اور راست بازی کا قائل پاتے تھے۔ باوجود عقائد سے مخالفت کے مسلمان اور ہندو سب آپ کی نیکی اور راست بازی کے قائل تھے اور آپ کے کریکٹر پر کبھی کسی دشمن نے بھی حملہ نہیں کیا۔ چہ جائیکہ کوئی مرید ہو کر ایسا الزام لگائے جیسے میاں صاحب پر لگ رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اپنی بریت کے لئے میاں صاحب کو ان حقائق کا انکار کرنا پڑا اور وہ