احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
خاکسار نے اپنے ان تین خطوط میں ذکر کئے ہیں جو خلیفہ کی خدمت میں ۱۱؍جون و۱۴؍جون و۲۳؍جون کو لکھے گئے تھے قسم کھائی ہے کہ وہ غلط ہیں۔ اس قسم کے بعد اب اس خاکسار کا کیاخیال ہے؟ سو ایسے تمام دوستوں پر جو خلیفہ کی اس تحریر سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ خلیفہ نے اس بارے میں کوئی قسم کھائی ہے۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انہیں خلیفہ کی تحریر کو سمجھنے میں سخت غلطی لگی ہے۔ جس چیز کو انہوں نے قسم سمجھا ہے وہ قسم نہیں بلکہ درحقیقت ایک مسودہ ہے جو انہوں نے اخبار الفضل میں نقل کر دیا ہے اور چونکہ اس مسودے میں قسم کا ذکر آتا ہے۔ اس لئے بہت سے لوگوں کو یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ خلیفہ قسم کھا گئے ہیں۔ حالانکہ واقعہ یہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ اس تحریر میں یہ فرمارہے ہیں کہ جس وقت خاکسار کا تیسرا خط ۲۳؍جون کوانہیں ملا (پہلے ۱۱ اور ۱۴؍جون والے دو خطوں پر تو خلیفہ بالکل خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا) تو اس کے دوسرے روز انہوں نے چند احباب کو بلایا تاکہ ان کے مشورے سے میرے خطوط کا جواب دیں۔جب احباب جمع ہوئے تو خلیفہ ان سے مشورہ لینے سے قبل میرے خطوط کے جواب کے لئے ایک مسودہ اپنی طرف سے تیار کر کے احباب کی مجلس میں لے گئے اور انہیں وہ مسودہ سنایا اور کہا کہ میں یہ جواب دینا چاہتا ہوں۔ لیکن احباب نے وہ جواب بھیجنے کا مشورہ نہ دیا اور اس مشورے کو خلیفہ نے قبول کر لیا اور ایک دوسرا جواب ان کے مشورہ سے لکھاگیا اور اسے میری طرف بھیجا گیا اور پھر وہ اخبار الفضل میں بھی شائع کر دیا گیا۔ پس خلیفہ ۲؍نومبر کے الفضل میں شائع شدہ تحریر میں اس مسودے کو نقل کرتے ہوئے یہ فرمارہے ہیں کہ میں اس مسودے کو احباب کی مجلس میں لے گیا تھا۔ مگر احباب نے مجھے یہ جواب بھیجنے نہیں دیا اور میں نے دوسرا جواب بھیجا جس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ مسودہ کالعدم ہوگیا اور اس کی جگہ دوسرا مسودہ لکھ کر مجھے بھیجا گیا۔ گویا خلیفہ نے نہ تو ان احباب کے سامنے قسم کھائی جن کو مشورہ کے لئے بلایا تھا اور نہ اب ہی خط کو شائع کرتے وقت قسم کھائی دونوں دفعہ صرف مسودہ کو پیش کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ لیکن مسودہ کونقل اس طرز سے الفضل میں شائع ہے جس سے بعض لوگ اس مغالطہ میں پڑ گئے ہیں کہ فی الحقیقت خلیفہ نے قسم کھا لی ہے۔ اگر خلیفہ کا منشاء قسم کھانے کا ہوتا تو وہ اس مضمون میں جو ۲۰؍نومبر کے الفضل میں شائع ہوا ہے مسودہ کے نقل کرنے پر اکتفاء کرتے۔ کیونکہ وہ مسودہ تو منسوخ ہوچکا تھا۔ بلکہ ازسرنو قسم کھا لیتے اور معاملہ صاف ہو جاتا۔ خلیفہ کا ۲۰؍نومبر والے مضمون میں اس معاملہ میں کسی قسم کی قسم نہ کھانا صاف بتا رہا ہے کہ وہ قسم کھانے