احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
گا۔ جب تک میری بیعت میں داخل نہ ہولے۔‘‘ بلکہ اس سے بڑھ کر انہوں نے یہاں تک فرمادیا ہے کہ: ’’مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ مسیح موعود کو چھوڑتا ہے جو مسیح موعود کو چھوڑتا ہے وہ رسول کریمﷺ کو چھوڑتا ہے اور جو رسول کریمﷺ کو چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے۔ پس جو شخص مجھے چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑتا ہے۔ ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ کتنی بڑی تعلّی ہے۔ کتنا بڑا غلو ہے اور کتنا بڑا بول ہے جو سوائے اس کے کہ ’’کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم‘‘ کا مصداق ہو اور کوئی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا۔‘‘ نہ معلوم جناب خلیفہ نے یہ الفاظ کس حیثیت سے استعمال کئے ہیں۔ زیاہ سے زیادہ ان کی حیثیت ایک خلیفہ ہونے کے ہے اور خلیفہ بھی وہ خلیفہ جو مامور نہیں بلکہ لوگوں کے انتخاب سے خلیفہ بنا ہے اور وہ بھی پہلا خلیفہ نہیں بلکہ دوسرا خلیفہ جو مسیح موعود کے فیصلہ کی رو سے آیت استخلاف کے ماتحت نہیں آتا۔ پس کیا جناب خلیفہ بتا سکتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد قوم کی طرف سے منتخب کنندہ خلفاء میں سے کسی خلیفہ نے کبھی ایسا دعویٰ کیا ہو کہ جو شخص ان کی بیعت میں داخل نہ ہو وہ سچے دل سے نبی پر ایمان لانے والا نہیں اور جو شخص انہیں چھوڑتا ہے وہ خدا کو چھوڑنے والا ہوتا ہے۔ پس جب محمد رسول اﷲﷺ یعنی آقا کے خلفاء کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ کسی صحابی کے متعلق محض ان کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے یہ فتویٰ دیں کہ اس صحابی کو رسول کریمﷺ پر سچا ایمان نہیں تو مسیح موعود یعنی غلام کے خلیفہ کو یہ کس طرح حق پہنچ سکتا ہے کہ وہ مسیح موعود کے ایسے صحابی کے متعلق جسے مسیح موعود کے مبارک ہاتھ پر بیعت کرنے کا فخر حاصل ہو اور وہ خلیفہ کی بیعت کئے بغیر فوت ہو جائے۔ یہ فتوے دے کر اسے مسیح موعود پر سچا ایمان نہیں تھا اور یا یہ کہ وہ ایسی حالت میں فوت ہو جائے کہ اس نے خدا کو چھوڑا تھا اور اسے خدا پر کوئی ایمان نہ تھا۔ میں حیران ہوں کہ خلیفہ کو اتنی بڑی تعلّی کی کس طرح جسارت ہوئی ہے۔ جب کہ وہ مانتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں ایک جماعت نے بعض خلفاء کی بیعت نہیں کی اور ان میں بعض بڑے بڑے جلیل القدر صحابی شامل ہیں۔ جنہوں نے اﷲتعالیٰ سے رضی اﷲ عنہم ورضواعنہ کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہوا تھا اور جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ یعنی جن کو نبی کریمﷺ کی زبان مبارک پر جنت کی بشارت مل چکی تھی اور جو خداتعالیٰ کی جناب سے اس انعام کے وارث ہوچکے ہوئے تھے کہ ’’اعملوا ما شئتم‘‘ یعنی اب جو تم چاہو کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا ہر قول وفعل اﷲ کی رضا کے عین مطابق ہوتا تھا اور وہ اﷲتعالیٰ کی رضا کے خلاف کچھ نہ کرسکتے تھے اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو نہ صرف یہ کہ بیعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ خلیفہ کے ساتھ جنگ کرتے رہے اور