احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
کے منہ سے یہ الفاظ کیسے نکلے؟ کیا ان الفاظ سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ کرامؓ شریعت کی ظاہری خلاف ورزی پر ہی نہیں بلکہ اگر ان کو قرائن وغیرہ سے معلوم ہو جائے کہ خلیفہ وقت شریعت کے خلاف خیال رکھتا ہے تو اسی بناء پر ہی وہ خلیفہ کو معزول کرنے کے لئے ہر وقت تیار تھے۔ اسی طرح ایک موقعہ پر معاذ بن جبل نے جو ایک بہت بڑے عظیم الشان صحابی تھے رومیوں کے دربار میں رومیوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ ’’اے رومیو! تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان ومال کا اختیار ہے۔ لیکن ہم نے جس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں بھی اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹے جائیں۔ پردے میں نہیں بیٹھتا۔ اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا۔ مال ودولت میں اس کو ہم پر کوئی ترجیح نہیں۔‘‘ پس خلاصہ کلام یہ کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک ہی واقعہ ایسا پیش آیا جو ان کے عزل کے سوال کو پیدا کر سکتا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو تسلی دلادی جس سے یہ سوال پیدا ہونے سے رک گیا۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ پہلے دونوں خلفاء کے زمانے میں ان کے عزل کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی اور بغیر ضرورت عزل جائز نہیں۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ ہوئے۔ ان کے زمانہ میں مسلمانوں کو ان کے طرز عمل پر اعتراضات ہوئے اور انہوں نے اپنے حقوق کو حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں محفوظ نہ سمجھا۔ اس پر انہوں نے مسلمانوں کو تسلی دلانے کے لئے کئی مرتبہ کوشش کی۔ چنانچہ ایک مرتبہ انہوں نے تمام گورنروں کی ایک میٹنگ طلب کی اور ان سے اس بارے میں مشورہ کیا۔ ہر ایک گورنر نے اپنا اپنا مشورہ پیش کیا۔ لیکن حضرت عمرو بن عاص جیسے جلیل القدر صحابی نے اپنا مشورہ ان الفاظ میں دیا۔ ’’زغت وزاغوا فاعتدل اوء عتزل‘‘ یعنی آپ سے بھی کجی سرزد ہوئی ہے اور آپ کے گورنروں سے بھی کجی سرزد ہوئی ہے۔ پس یا تو سیدھے ہو جائیے یا معزول ہو جائیے۔ حضرت عمرو بن العاص کے یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک خلیفہ کا عزل نہ صرف جائز بلکہ بوقت ضرورت لازمی تھا۔ پھر ایک وقت جب مسلمانوں کی شکایات زور پکڑ گئیں اور حضرت عثمانؓ کے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم مال پر مسلمانوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوئے اورانہوں نے اس اعتراض کو بڑے زور سے پیش کیا تو حضرت عثمانؓ نے یہ کہا: ’’اگر تم اسے غلطی سمجھتے ہو تو اس مال کو واپس لے لو۔میرا امر تمہارے امر کے تابع ہے۔‘‘