احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
اس خطبہ نے خلیفہ اور امت کے درمیان جو باہمی تعلق شریعت نے قائم کیا ہے اس کو اچھی طرح سے واضح کر دیا ہے۔ یعنی یہ کہ جس طرح خلیفہ کا فرض ہے کہ افراد امت کے اعمال کی نگرانی کرے اور انتظام وانصرام قائم رکھے اور اسی طرح افراد امت کا بھی فرض ہے کہ وہ خلیفہ کے اعمال کی نگرانی کریں اور دیکھتے رہیں کہ وہ احکام شریعت کے خلاف تو نہیں چلتا۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ ہوئے۔ انہوں نے بھی خلیفہ ہوتے ہی جو پہلا خطبہ پڑھا اس میں بھی یہی فرمایا: ’’اے مسلمانو! تم میں سے جوکوئی بھی میرے اندرکسی قسم کی کوئی کجی دیکھے تو اس پر فرض ہے کہ اس کجی کو سیدھا کر دے۔‘‘ ان الفاظ کے فرمانے پر ایک صحابی اٹھا اور اس نے کمال آزادی کے ساتھ حقیقی اسلامی روح سے کام لیتے ہوئے کہا: ’’ہم اس کجی کو تلوار سے سیدھا کر دیں گے۔‘‘ یہ کسی منافق کے الفاظ نہ تھے۔ بلکہ اس شخص کے الفاظ تھے جو شریعت اسلامی کی صحیح روح کو سمجھنے والا اور تمام مسلمانوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی کرنے والا تھا۔ کیونکہ تمام مجمع میں سے کسی مسلمان نے اس کے خلاف نہ صرف یہ کہ جو کچھ کہاگیا ہے وہ فی الحقیقت ان کے خیالات کی صحیح ترجمانی ہے۔ گویا بالفاظ دیگر اس مسئلہ پر صحابہ کرامؓ کا اس طرح اجماع ہوگیا۔ جس طرح وفات مسیح کے مسئلہ پر اجماع ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ کے بعد تیسرے خلیفے حضرت عثمانؓ ہوئے۔ انہوں نے بھی اپنے پہلے خطبہ میں یہی فرمایا: ’’میں شریعت غرّا کی پیروی کرنے والا ہوں اور س میں کوئی نئی چیز داخل نہیں کر سکتا۔ اے مسلمانوں ہوشیار ہوکر سن لو کہ تم مجھ سے اﷲتعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت کی اتباع کے بعد تین چیزوں کا مطالبہ کر سکتے ہو۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان لوگوں کی اتباع جومجھ سے پہلے ہوئے ہیں۔ ان امور میں جن میں تمہارا اجماع ہوچکا ہے۔‘‘ ان الفاظ میں خلیفہ وقت نے کس وضاحت کے ساتھ اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ صرف کتاب اﷲ اور سنت نبی کریمﷺ بلکہ مسلمانوں کے اجماع کی اطاعت بھی خلیفہ کے لئے لازمی اور واجب ہے۔ اس کے بعد چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ ہوئے ہیں۔ انہوں نے جب مصر پر قیس بن سعید کو گورنر بنا کر بھیجا تو اہل مصر کے نام ایک خط لکھا۔ جس میں یہ الفاظ تھے: ’’تم میری بیعت کرو اور اس بیعت کے بعد تمہارا حق ہے کہ تم دیکھو کہ آیا اﷲتعالیٰ کتاب اور اس کے رسول کی سنت پر عمل کرتا ہوں یا نہیں اگر نہیں کرتا تو تم اس کا مجھ سے مطالبہ کرو۔‘‘ پھر قیس بن سعد نے اہل مصر کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حضرت علیؓ کی بیعت کی