احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
میری غرض محض تحقیق حق اور ان سے استفادہ کرنا ہے۔ اس لئے میں ان کا نہایت ہی مشکور ہوں۔ اگر وہ اپنے علم سے مجھے استفادہ کا موقع دیں گے۔ میں ان سے خود مل کر بالمشافہ تبادلہ خیالات کر لینا لیکن بائیکاٹ کی دیوار میرے راستے میں حائل ہے۔ اس لئے اشتہارکو ہی تبادلہ خیالات کا ذریعہ بنانے پر مجبور ہوا ہوں۔ بہرحال اس مسئلہ پر میری معروضات جو موقع کے مناسب حال نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں۔ حسب ذیل ہیں۔ خلیفہ کا عزل ایک ایسی بات ہے جس کے امکان پر قریباً قریباً تمام صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ خلیفہ معزول نہیں ہوسکتا۔ حتیٰ کہ خود خلفائے اربعہ کو بھی یہ خیال نہ تھا کہ وہ معزول نہیں کئے جاسکتے۔ چنانچہ امت محمدیہ میں سب سے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ نے کرسی خلافت پر متمکن ہوتے ہی جو سب سے پہلا خطبہ دیا اس میں وہ فرماتے ہیں۔ اے مسلمانو! میں صرف تمہارے جیسا امت کا ایک فرد ہوں۔ میں صرف شریعت کی پیروی کرنے والا ہوں۔ میں اس میں کوئی چیز نئی داخل نہیں کر سکتا۔ اگر میں اس شریعت پر سیدھا چلتا رہوں تو تم میری اتباع کرنا اور اگر میں اس سے ادھر ادھر ہو جاؤں تو تم مجھے سیدھا کر دینا۔ پھر فرماتے ہیں: ’’جب تک میں اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں۔ تم میری اطاعت کرتے رہو اور جب میں اﷲ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں توتم پر میری کوئی اطاعت نہیں۔‘‘ اس خطبہ نے اصولی طور پر دو باتوں کا فیصلہ کر دیا۔ اوّل… یہ کہ خلیفہ بالکل آزاد نہیں۔ شریعت کی اطاعت کا جوأ اس کی گردن پر ہے اور وہ شریعت سے سرمو ادھر ادھر نہیں ہوسکتا۔ دوم… یہ کہ جس طرح امت کا فرض یہ ہے کہ وہ خلیفہ کی اطاعت کرے۔ اسی طرح اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ خلیفہ کے اعمال کی نگرانی کرے کہ کہیں وہ شریعت سے منحرف تو نہیں ہورہا اور اگر اسے شریعت سے منحرف ہوتا دیکھے تو اس کا فرض ہے کہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرے اور اس وقت تک اس کی اطاعت نہ کرے جب تک کہ وہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کر رہا ہے اور اگر وہ باز نہ آئے تو اسے اس کے عہدہ سے الگ کردے۔ کیونکہ عہدہ پر قائم رکھنا یا اس سے اسے معزول کر دینا اسی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے سامنے وہ جوابدہ ہے۔