احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
اے صحابہ کرامؓ کے بروز کہلانے والی جماعت! ایسے مواقع پر صحابہ کرامؓ کا جو طرز عمل ہوا کرتا تھا وہ آپ لوگوں کے سامنے رکھتاہوں اور وہ یہ تھا کہ جب کسی مسلمان کو کوئی شکایت پیدا ہوئی اور خلیفہ وقت نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو وہ حضرت نبی کریمﷺ کے صحابہؓ کو توجہ دلاتے تھے اور وہ فوراً خلیفہ وقت کے پاس جاتے اور ان شکایات کو پیش کرتے اور اگر انہیں درست پاتے تو خلیفہ وقت سے ان کی تلافی کراتے اور خلیفہ وقت بھی علی الاعلان اپنی غلطی کا اقرار کرتا اور اس سے رجوع کا اعلان کراتا۔ پس صحابہ کرامؓ کے اس طرزعمل کو پیش کر کے میں بھی اپنی جماعت سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ میری شکایت کو سننے کے لئے فوراً ایک آزاد کمیشن مقرر کرے۔ اگر وہ کمیشن میری شکایات کو سن کر میرے ساتھ متفق ہو جائے کہ ان شکایات کی موجودگی میں خلیفہ، خلیفہ نہیں رہ سکتا تو پھر وہ ان شکایات کی تحقیق کرے اور تحقیق میں اگر وہ شکایات صحیح ثابت ہو جائیں تو موجودہ اور آئندہ خلیفہ کے متعلق اپنا فیصلہ کر لے۔ میں جماعت کو یقین دلاتا ہوں کہ جن نقائص کی وجہ سے میں بیعت سے علیحدہ ہواہوں۔ وہ یقینا خلیفہ میں موجود ہیں اور ان کے اثبات کے لئے میرے پاس کافی دلائل ہیں اور وہ ایسے نقائص ہیں کہ جن کی موجودگی میں کوئی شخص خلیفہ نہیں رہ سکتا۔ پس جماعت کا یہ فرض ہے کہ ان کی تحقیق کی طرف فوراً توجہ کرے۔ ورنہ وہ مجرمانہ خاموشی کی مرتکب ہوگی اور اﷲتعالیٰ کے حضور اپنی اس غفلت کی جوابدہ ہوگی۔ جب تک انہیں علم نہیں تھا اس وقت تک وہ معذور تھے۔ لیکن اب جب کہ ان کے علم میں بات آگئی ہے تو اب خاموشی اﷲتعالیٰ کی نگاہ میں انہیں قصور وار بنادے گی۔ پس دوستو اٹھو! اور خوف کی چادر اتار کر مؤمنانہ دلیری سے کام لیتے ہوئے تحقیق شروع کر دو۔ خلیفہ کی اجازت کی اس میں قطعاً ضرورت نہیں۔ خلیفہ اور خاکسار کا مقدمہ جماعت کے سامنے پیش ہے جماعت کا فرض ہے کہ وہ فریقین کے بیانات سن کر انصاف کے ساتھ اپنا فیصلہ دے نہ کہ یک طرفہ بیان سن کر ہی ایک بھائی کے خلاف ڈگری دے دے۔ جیسا کہ اس وقت تک کیاگیا ہے۔ دوست یاد رکھیں کہ اگر انہوں نے اس وقت دلیری سے کام لے کر تحقیق نہ کی تو وہ خلیفہ کو ان نقائص میں مبتلا رکھنے میں ان کے محدود معاون بن کر اﷲتعالیٰ کے حضور خود مجرم قرار پائیں گے اور ان کے نقائص کی وجہ سے جو خطرناک نتائج جماعت میں پیدا ہورہے ہیں۔ ان کی تمام ذمہ داری خود جماعت پر ہوگی۔