احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
میں نیزے مارے۔ یہاں تک کہ حضور اور حضور کے خدام کو اپنے وطن عزیز مکہ کو ہی چھوڑنا پڑا۔ پھر کیا جب حضور اسی مکہ میں ہزاروں کے لشکر سمیت فاتح کی حیثیت سے دوبارہ داخل ہوئے تو کیا حضور نے اپنے دشمنوں سے ذاتی انتقام لیا؟ یا یہ فرمایا کہ میں دنیا کے لئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا۔ ۷… پھر کیا جب طائف والوں نے تین میل تک حضور کا تعاقب کیا، گالیاں دیں۔ اینٹ وپتھر مارے۔ حضور کی پنڈلیاں اور جسم مبارک لہولہان کر دیا۔ جوتیاں لہو سے بھر گئیں۔ حضور کا قول ہے کہ مجھے کچھ ہوش نہ تھا کہ کدھر سے آرہا ہوں اور کہاں جارہا ہوں۔ اس حالت میں بھی جب فرشتہ نازل ہوا کہ اگر اجازت ہو تو اسی بستی پر پہاڑ گرا دوں تو رحمت اللعالمین نے فرمایا۔ نہیں ان میں سے یا ان کی نسلوں میں سے بہت سے لوگ ایمان لائیں گے۔ ۸… اس طرح جنگ احد میں جب تلواریں چل رہی تھیں۔ حضور کے رخسار پر زخم آئے۔ پیشانی سے خون جاری ہوا۔ حضور کے دانت مبارک شہید کر دئیے گئے۔ دشمن نابکار حضور کے سرمبارک تک کو جسم اطہر سے جدا کرنا چاہتا تھا۔ اس نازک گھڑی میں رحمت اللعالمین کے دل میں جزیہ انتقام موجزن ہونے کی بجائے زبان مبارک پر یہ دعا جاری تھی۔ رب اغفر قومی فانہم لا یعلمون! اے میرے رب میری قوم کو معاف فرما دے کہ یہ بے سمجھ ہے۔ ۹… پھر کیا حضرت عمر فاروقؓ (جن کے نام سے قیصر وکسریٰ جیسے بادشاہ کانپ اٹھتے تھے) جب ہزارہا کے مجمع میں خطبہ پڑھ رہے تھے تو ایک معترض نے اتھ کر کہا کہ یمنی چادریں جو مال غنیمت میں آئی تھیں اور ہر ایک کے حصہ میں ایک ایک آئی۔ جس سے بمشکل چھوٹا سا کرتہ بنتا ہے۔ آپ کا اس قدر لمبا چغہ کہاں سے بن گیا (گویا خیانت کا الزام لگایا) اس پر امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ نے نہ اس کو برا بھلا کہا نہ اس کو منافق ومرتد قرار دے کر بائیکاٹ ومقاطعہ کیا۔ نہ یہ فرمایاکہ میں خداتعالیٰ کا قائم کردہ برحق خلیفہ ہوں جو مجھ پر سچے اعتراض بھی کرے گا تباہ وبرباد کر دیاجائے گا۔ نہ یہ فرمایا کہ اگر میں نے خائن ہی ہونا تھا تو خدا نے مجھے خلیفہ کیوں بنایا۔ نہ یہ فرمایا کہ میرے متعلق آنحضرتﷺ کی اتنی بشارات موجود ہیں میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ نہ آپ کے خوشامدی مولویوں سے ہی کسی نے یہ کہا کہ جس طرح اﷲتعالیٰ سے کوئی پوچھنے والا نہیں اس طرح خلیفہ سے بھی کوئی بازپرس نہیں ہوسکتی۔ بلکہ جب تک آپ نے معترض کی تسلی نہیں کر دی۔ اس وقت تک خطبہ شروع نہیں فرمایا۔ کیونکہ جس کا حساب صاف ہے اس کو کسی کے اعتراض کا کیا ڈر ہوسکتا ہے؟