احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
۱۰… پھر کیا جن لوگوں نے حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اﷲ وجہ پر اعتراض کئے۔ کیا ان ہر دو بزرگوں نے اپنی بریت کی تھی۔ یا الٹا معترضین کو ہی منافق ومرتد قرار دے کر پیچھا چھڑایا تھا؟ ۱۱… کیا حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے بھی کبھی کسی کا بائیکاٹ ومقاطعہ کیا۔ یا مخالفین آپ کو دکھ وتکالیف دیتے رہے۔ آپ کے راستہ میں دیواریں کھینچ کر شارع عام پر گزرنے سے روکتے رہے۔ آپ کے ماننے والوں کا بائیکاٹ ومقاطعہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ بعض احمدیوں کو سرزمین کابل میں بڑی بے رحمی سے سخت تکالیف کا تختہ مشق بنا کر سنگسار کیاگیا۔ ۱۲… پھر کیا حضرت خلیفہ اوّل (نوردین) نے بھی کبھی اپنے معترضین کا بائیکاٹ کیا یا خلفاء راشدین کے نقش قدم پر چل کر اپنی بریت کرتے رہے؟ بائیکاٹ ومقاطعہ سے اﷲ اس کے رسول کی نافرمانی لازم آتی ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ کے ماننے والے کفار اور باطل پرستوں کے حربہ بائیکاٹ ومقاطعہ کو اختیار نہیں کر سکتے۔ مباہلہ جائز ہے حضرت مسیح موعود کے تین حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ اس میں زنا کے الزام پر مباہلہ کرنے کی پوری پوری وضاحت موجود ہے۔ اس سے یہ ثابت ہے کہ زنا کے الزام لگانے والے خواہ چار گواہ پیش نہ بھی کریں تو وہ میدان مباہلہ میں نکل آئیں تو ان سے مباہلہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ حضور کا حکم ملاحظہ فرمائیے۔ ۱… ’’مباہلہ صرف ایسے شخصوں سے ہوتا ہے جو اپنے قول کی قطع اور یقین پر بنا رکھ کر کسی دوسرے کو مفتری اور زانی قرار دیتے ہیں۔‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۲ء) ۲… ’’دوم اس ظالم کے ساتھ جو بے جا تہمت کسی پر لگا کر اور اس کو ذلیل کرنا چاہتا ہے مثلاً ایک مستورہ عورت کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ عورت زانیہ ہے۔ کیونکہ میں نے بچشم خود اس کو زناکرتے دیکھا ہے یا مثلاً ایک شخص کو کہتا ہے کہ میں یقینا جانتاہوں کہ یہ شراب خور ہے۔ کیونکہ بچشم خود اسے شراب پیتے دیکھا ہے۔ تو اس حالت میں بھی مباہلہ جائز ہے۔ کیونکہ اس جگہ کوئی اجتہادی اختلاف نہیں۔ کیونکہ ایک شخص اپنے یقین اور رؤیت پر بناء رکھ کر ایک مؤمن بھائی کو ذلت پہنچانا چاہتا ہے۔‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍مارچ ۱۹۰۲ء) ۳… ’’یہ تو اسی قسم کی بات ہے جیسے کوئی کسی کی نسبت یہ کہے کہ میں نے اسے بچشم خود زنا کرتے دیکھا ہے یا بچشم خود شراب پیتے دیکھا ہے۔ اگر میں اس بنیاد افتراء کے لئے مباہلہ نہ کرتا تو اور کیا کرتا۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۲ ص۳،۴، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۳)