موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
سامان اسی اونٹ پر لدا ہوا ہے،وہ راستے میں تھوڑی دیر سستانے کے لیے سوگیا، جب اُٹھا تو اُس کا اونٹ غائب ہوگیا۔ اب وہ اُس کی تلاش میں اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا رہا، مگر اونٹ نہ ملا تو یہ تھک ہار کر زندگی سے مایوس ہوکر بیٹھ گیا۔اور موت کا انتظار کرنے لگا،اسی اثناء میں پھر اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا، جب اُس کی آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ اُس کے سامنے اُس کا اونٹ کھڑا ہے اور اُس کا سامان،توشہ اور سب چیزیں موجود ہیں۔ اپنے اس اونٹ اور سامان کو دیکھ کر اسے جو خوشی ہوئی اُس خوشی میں اُس نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور شکر اداکیا۔اور یوں کہا کہ:’’اللّٰهُمَّ أَنْتَ عَبْدِيْ وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ‘‘۱؎ اے اللہ آپ میرے بندے ہیں اور میں آپ کا خدا ہوں، اور اس نے فرطِ خوشی سے غلط کہہ دیا۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ اگر کوئی بندہ مارے خوشی کے فرطِ مسرت میں خود کو خداکہے اور خدا کو اپنا بندہ کہہ دے تو اُسے کتنی خوشی ہوئی ہوگی۔آپ نے فرمایا کہ جب کوئی نافرمان بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کے لیے متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس بندہ سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ اس لئے اگر کسی کو خصوصی رحمت حاصل کرنی ہے تو پھر ان چیزوں کو کرنا ضروری ہے،جن کا گزشتہ آیات میں تذکرہ کیا گیا،یہ چند آیتیں آپ کے سامنے صفتِ رحمن اور رحیم سے متعلق بیان کی گئیں،تاکہ رحمن اور رحیم کا دنیوی اور اخروی نعمتوں کے ساتھ جوڑ سمجھ میں آئے،اور اللہ پاک کی بندوں پر مہربانی اور رحم و کرم کا کچھ استحضار ہوجائے۔ ------------------------------ ۱؎:صحیح مسلم: التوبۃ؍ باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بہا۔