موضوعاتی درس قرآن ۔ سورہ فاتحہ |
|
تعریف ہے‘‘، وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کو پیدا کرنے والا مانتے ہیں لیکن اُس کے بعد والے نظام کو نہیں مانتے بلکہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف ہمیں پیدا کردیا، اب ہم اپنی مرضی سے جی رہے ہیں، تو ان کا رد نہ ہوتا کیونکہ جو بات ’’ربوبیت‘‘ کے لفظ میں ہے وہ ’’خالق‘‘ اور ’’صانع‘‘ کے لفظ میں نہیں ہے حالانکہ لفظ ’’خالق‘‘ قرآن پاک میں دوسری جگہوں پر استعمال ہوا ہے لیکن موقع و محل کے اعتبار سے یہاں پر ربّ ہونا ضروری تھا۔ کیونکہ غفلتوں اور ظلمتوں میں سے ایک ظلمت یہ بھی ہے کہ انسانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو اللہ کو مانتا تو ہے لیکن یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا بنانے کے بعد اس سے بے تعلق ہوگئے ، جیسے کسی فیکٹری میں کوئی چیز پروڈکٹ(Product) کی جاتی ہے، اُس کے بعد بنانے والے کااُس چیز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،اسی طرح اللہ پاک کا معاملہ ہوتا ہے۔نعوذباللہ!اگر ’’خالق‘‘کہتے تو مطلب یہ ہوتا کہ اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا کردیا اور قصہ ختم ہوگیا،لیکن ’’ربّ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ پیدا کرنے کے بعد اُس کو چھوڑا نہیں بلکہ اُس کی ربوبیت بھی اسی کے ذمہ ہے،ان کی ضرورتوں کی تکمیل بھی اسی کے ذمہ ہے،وہ مخلوق سے بے تعلق نہیں۔ ’’عالمین‘‘ یعنی سارے عالَموں کا(رب ہے)۔ ’’عالمین‘‘ کی جگہ پر اگر صرف ’’عالَم‘‘ کا لفظ آتا تو مشرکین کہہ سکتے تھے کہ اللہ تو صرف ایک عالَم کا ربّ ہے، لات دوسرے عالَم کا،منات تیسرے عالَم کا، ہبل چوتھے عالَم کااور یسوغ پانچویں عالَم کا رب ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لئے اتنی بھی گنجائش نہیں چھوڑی،اور فرمایاکہ میں ہی سارے عالموں کا رب ہوں، کوئی چیز میرے دائرۂ اختیار سے باہر نہیں ہے نہ آسمان کی،نہ زمین کی، نہ شجر کی، نہ حجر کی، نہ بَر کی نہ بحر کی۔