معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پہاڑ کے دامن میں ٹھہرا ہواہے۔ قبل اس کے کہ کوتوال ان چوروں کو گرفتار کرتا اس نے دامنِ کوہ میں اس درویش کو دیکھا اور سمجھا کہ یہ کوئی چور ہے۔ فوراً گرفتارکرلیا۔ فقیر نے بہت شور مچایاکہ میں چور نہیں ہوں لیکن کوتوال اور سپاہیوں نے ایک نہ سنی اور اس کا داہنا ہاتھ اور بایاں پیر کاٹ ڈالا۔ اسی اثناء میں ایک سوار ادھر سے گزرا، جب اس نے یہ قصہ دیکھا تو کوتوال اور اس کے ساتھیوں کو بہت ڈانٹاکہ اے کتے! تونے ایسے نیک فقیر کے ساتھ یہ کیا سلوک کیا؟یہ تو فلاں شیخِ کامل اور ابدالِ وقت ہے جس نے دنیا سے کنارہ کش ہوکر اس جگہ خلوت اختیار کی تھی۔ یہ سنتے ہی کوتوال پر لرزہ طاری ہوگیااور خوف و ندامت سے ننگے پیر، ننگے سر اس فقیر کی طرف دوڑا اور اپنی غلطی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور قسم کھاکر عرض کیا کہ میں نہیں جانتاتھا کہ کہ آپ ایک بزرگ شخص ہیں۔ میں نے غلط فہمی سے آپ کو چوروں کے گروہ کاایک فرد سمجھ کریہ معاملہ کیا۔ خدا کے لیے آپ مجھے معاف فرمادیں ورنہ میں ابھی قہرِ الٰہی میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجاؤں گا۔ درویش نے کہاکہ بھائی! تیرا کچھ قصور نہیں ہے۔ میں خود قصور وار ہوں ، میں نے اپنے مالک سے بد عہدی کی تھی جس کی مجھے یہ سزا ملی ہے ؎ گفت می دانم سبب ایں نیش را می شناسم من گناہِ خویش را اس درویش نے کہا کہ میں اس نیش یعنی ڈنک کاسبب جانتاہوں۔ میرا باطن اس سزا کی وجہ سے خوب واقف ہے کہ میرے کس گناہ کے سبب یہ سزا مجھ پر مسلّط کی گئی ہے ؎ من شکستم حرمتِ ایمانِ او پس یمینم برد دو دستانِ او میں نے حق تعالیٰ سے معاہدے کا احترام توڑدیا تو اس شامتِ عمل نے میرے ہاتھ پاؤں کٹوادیے۔ مخلصاں ہستند دائم در خطر امتحانہا ہست در رہ اے پسر!