معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حضرت لقمان علیہ السلام اس رئیس کی محبت وعادت کی رعایت سے کھالینے کے بعدبقیہ اس کے لیے بھیج دیا کرتے۔ ایک دن آقا کی خدمت میں کہیں سے خربوزہ آیا،اس وقت حضرت لقمان علیہ السلام موجود نہ تھے ، رئیس نے ایک غلام کو بھیجا کہ حضرت لقمان علیہ السلام کو بلا لاؤ ،جب حضرت لقمان علیہ السلام تشریف لائے تو رئیس نے اپنے ہاتھ سے اس خربوزے کی قاشیں بنائیں اور ایک ایک قاش محبت سے کھلاتا جاتا تھااور دل ہی دل میں مسرورہورہاتھا کہ میری اس محبت کا ان پر کیا اثر ہورہاہوگا۔ حضرت لقمان علیہ السلام خوشی خوشی ہرقاش کھاتے اور شکر بجا لاتے یہاں تک کہ ستر قاشیں کھالیں اور ایک قاش باقی رہ گئی تو اس رئیس نے کہا کہ اس کو میں کھاؤں گاتاکہ دیکھوں کہ یہ خربوزہ کتنا شیریں تھا۔ یہ کہہ کر اس نے قاش کو منہ میں رکھاہی تھا کہ اس کی تلخی سے نوکِ زبان سے حلق تک آبلے پڑگئے اور ایک گھنٹے تک بے ہوش رہا۔ جب افاقہ ہوا تو حضرت لقمان علیہ السلام سے عرض کیاکہ اے جانِ جاں! آپ نے کس طرح اس خربوزے کو حلق سے فروکیا؟ اور اس قہر کو کس طرح لطف سمجھا؟ جب ایک قاش کھانے پر مجھ پر یہ بلاآئی توستر قاشوں کو آپ نے کس طرح برداشت کیا؟ حضرت لقمان علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ اے خواجہ! آپ کے دستِ نعمت سے صدہا نعمتیں کھائی ہیں جن کے شکر کے بوجھ سے میری کمر خمیدہ ہورہی ہے۔ پس مجھے اس بات سے شرم آئی کہ جس ہاتھ سے اس قدرنعمتیں ملی ہوں اسی ہاتھ سے آج اگر ایک تلخی عطاہورہی ہے تو اس سے انحراف و روگردانی کروں۔ اے خواجہ! شکر عطا فرمانے والے! آپ کے ہاتھ کی لذت نے اس خربوزے کی تلخی کو شیرینی سے مبدل کردیا ؎ لذتِ دست شکر بخش تو داشت اندریں بطیخ تلخی کے گزاشت فائدہ: احقر اختر عفااللہ عنہ(رحمۃ اللہ علیہ) عرض کرتاہے کہ میرے مرشدحضرت مولاناشاہ پھولپوری قدس سرہ العزیز اپنی مجالسِ رشد وہدایت میں اس واقعے کو اکثر بڑے اہتمام سے ارشاد فرمایاکرتے تھے اورآخری شعرِ مذکور کو بہت ہی لذت سے بار بارپڑھا