معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اے بخوردہ خونِ من ہفتاد سال اے ز تو رویم سیہ پیشِ کمال مولانا فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زبانِ مبارک سے پیر چنگی کو جب حق تعالیٰ کے الطاف وعنایات اور عطائے انعامات کا علم ہوا تو غلبۂ حیرت وشکر اور ندامت سے کانپنے لگا ، اپنے ہاتھ کو ندامت سے چبانے لگا اور اپنے اوپر غصہ ہونے لگا۔ اپنی غفلت اور حق تعالیٰ کی رحمت کا خیال کرکے ایک چیخ ماری اور کہا کہ اے میرے آقائے بے نظیر! اپنی نالائقی اور غفلت کے باوجود آپ کی رحمتِ بے مثال کو دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہورہاہوں۔ جب پیر چنگی خوب رو چکا اور اس کا دردحد سے گزرگیا تو اپنے چنگ کو غصے سے زمین پر پٹک کر ریزہ ریزہ کردیااور اس کو مخاطب کرکے کہا کہ تونے ہی مجھے حق تعالیٰ کی محبت و رحمت سے محجوب رکھا تھا، تو نے ہی شاہراہِ حق سے میری راہ زنی کی تھی اور تونے ہی ستر سال تک میراخون پیا۔ یعنی تیرے ہی سبب لہو ولعب اور نافرمانی کرتے کرتے بوڑھا ہوگیااور تیرے ہی سبب میرا چہرہ حق تعالیٰ کے سامنے سیاہ تھا۔ اس مردِ پیر کی گریہ وزاری اور آہ و بکاء سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کاکلیجہ منہ کو آرہا تھا اور آپ کی آنکھیں اشکبار ہورہی تھیں۔ آپ نے فرمایاکہ اے شخص! تیری گریہ و زاری تیری باطنی ہوشیاری کی دلیل ہے، تیری جان حق تعالیٰ کے قرب سے زندہ اور روشن ہوگئی ہے کیوں کہ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں گناہ گار کے آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے ؎ اے جلیل اشک گنہ گار کے اک قطرہ کو ہے فضیلت تری تسبیح کے سو دانوں پر کہ برابر می کند شاہی مجید اشک را در وزن با ونِ شہید (رومیؒ)