معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہر کسے کو خویش را بیند چو خار از ندامت پس بنالد زار زار جو شخص کہ اپنے کو مثل خار گناہ گار اور حقیر سمجھتاہے اور اس احساس سے زار زار روتاہے تو۔ لطفِ حق جوشد ز درد و زاریش می شود از آہ و غم درباریش لطفِ حق اس کی زاری اور درد سے جوش میں آتاہے اور یہ بندہ اللہ تعالیٰ کا درباری اور محبوب بن جاتاہے۔ ہرکہ او از عشقِ حق زاریدہ شد چشمِ او پس سیدِ صد دیدہ شد جوشخص عشقِ حق سے روتاہے اس کی آنکھیں دوسری سینکڑوں آنکھوں کی سرداری کرتی ہیں۔ نیز آں ستاریٔ حق از کرم عیبہائے او بپوشد دم بدم اور حق تعالیٰ کی ستاری اپنے کرم سے ایسے گریہ و زاری کرنے والے بندوں کے عیوب کی پردہ پوشی کرتی ہے ہروقت۔ می کند ز عمالِ او صرفِ نظر لطف بار د از قدم تا فرقِ سر رحمتِ حق اس کے اعمال سے صرفِ نظر کرتی ہے اور اپنے لطف و کرم کی بارش اس کے سر سے پاؤں تک کرتی ہے۔ بر غلامِ بے ہنر الطافِ او در حقیقت جملہ از اوصافِ او