معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہاں اے طالبِ حق! تو اہلِ دل اور اہلِ نظر کا دامن جلد پکڑلے۔ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد آں را کو دل را می دہد اہلِ دل وہ لوگ کہلاتے ہیں جو اپنے دل کو حق تعالیٰ کی محبت میں فدا کردیتے ہیں یعنی اپنی خواہشاتِ نفسانیہ کو مرضیاتِ الٰہیہ کے تابع کردیتے ہیں اور دل اس ذاتِ پاک کو دیتے ہیں جو دل عطا کرنے والی ہے۔ دل نباید داد جز سلطانِ دل ہست بس ایں حاصلِ ایمانِ دل دل نہ دینا چاہیے مگر دل کے سلطان کو اور وہ اللہ ہے اور یہی ایمانِ دل کا حاصل ہے۔ گر تو خواہی دیدنِ اہلِ نظر غیرِ اہلِ دل مجو اہلِ نظر اگر تم اہلِ نظر کو دیکھنا چاہتے ہو تو ان ہی کو دیکھو جو اہلِ دل ہیں کیوں کہ اہلِ دل ہی اہلِ نظر کہلاتے ہیں۔ چوں بہائم گفت کافر را خدا کے شود اہلِ نظر او اے دلا کافر خواہ کتناہی اپنے کو محقق اور سائنس داں اور اہلِ فکر و اہلِ نظر کہے مگر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مثل بہائم بلکہ جانوروں سے بدتر قرار دیاہے تو وہ کیسے اہلِ نظر ہوسکتے ہیں۔ دور از خالق نہ شد اہلِ نظر گرچہ بر مخلوق دارد صد نظر جو اللہ تعالیٰ سے دور ہے وہ کبھی اہلِ نظرنہیں ہوسکتا اگرچہ مخلوقات پر سینکڑوں نظرِ تحقیق کا مدعی ہو۔ ہرکہ دارد بر رضائے حق نظر