معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پندِ ایں آں شاہِ من عبدالغنیؒ داد من آں ساکنِ چرخِ سنی یہ نصیحت میرے مرشد حضرت مولانا شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے دی جو اس وقت عالمِ برزخ میں آرام فرماہیں کہ ؎ جہد کن اخترؒ تو در افنائے خویش وصل کن از بحرِ حق دریائے خویش اے اختر! تم اپنے کو مٹانے میں مسلسل کوشش کرتے رہنا اور اپنے دریائے وجود کو حق تعالیٰ کے بحرِ ناپیدا کنار سے متصل کردینا یعنی اس فانی وجود کو مٹاکر تعلق مع اللہ کی برکت سے حیاتِ ابدی حاصل کرنا ؎ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ہرگز نہیں مرتا دل جو حق تعالیٰ کی محبت سے زندہ ہوتاہے۔ از بہائم خویش را کمتر ببیں جملہ خلقاں را ز خود بہتر ببیں جانوروں سے بھی اپنے کو کمتر سمجھنا اور جملہ مخلوقات کو اپنے سے بہتر سمجھنا کیوں کہ خاتمے کی خبر نہیں۔ از کسے حق یومِ دیں راضی شود بالیقیں او فخرِ دیں رازی بُوَد میدانِ محشر میں جس بندے سے خدا راضی ہوگا بے شک وہ فخر الدین رازی کہلانے کا مستحق ہوگا۔ پس گمانِ افضلی اندر حیات جز حماقت نیست ایں ظن اے ثقات پس اپنے افضل ہونے کا گمان زندگی میں سوائے بیوقوفی اور احمقانہ گمان کے کچھ نہیں اے ثقہ حضرات!