معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
یہاں تک کہ عارف کی ناک کو قوتِ شامہ اور کان کو قوتِ سامعہ آپ کی طرف سے عطا ہوجاتی ہے اور ہر حس کا حصہ الگ ہے۔ مراد یہ ہے کہ اہل اللہ کو ذکر و تقویٰ کے اہتمام سے ایک خاص نورِ بصیرت عطا ہوتاہے جس سے وہ مبصراتِ حقیقت کو دیکھتے ہیں اور اسی طرح ان کو خاص قوتِ سامعہ عطا ہوتی ہے جس سے وہ مسموعاتِ حقیقت کو سنتے ہیں۔ مولانا کی مراد یہاں اس حدیث شریف سے ہے جس میں کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ؎ ارشاد ہے ۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل اللہ مُبْصِرٌ لِلْحَقِّ وَ بِالْحَقِّ اور سَامِعٌ لِلْحَقِّ وَ بِالْحَقِّ ہوجاتے ہیں جس کو اصطلاحِ صوفیا میں فانی فی الحق اور باقی بالحق کہا جاتاہے۔ ہر حسے را چوں دہی رہ سوئے غیب نبود آں حس را فتور و مرگ و شیب جس کو بھی آپ غیب کی طرف راہ دیتے ہیں تو اس حس کو ضعف موت اور بڑھاپے کا نہیں ہوتا۔ حواسِّ خمسہ ظاہرہ ہوں یا حواسِّ خمسہ باطنہ ہوں جس کو بھی حق تعالیٰ شانہٗ غیب کی طرف راہ دکھادیتے ہیں تو اس کا عالمِ حقائق سے تعلق ہوجاتاہے اس کو ضعف موت اور بڑھاپے کا لاحق نہیں ہوتا بوجہ اس کے کہ وہ باقی ببقائے حق ہوجاتاہے اور گو نفسِ بقا میں محرومین بھی شریک ہیں یعنی اہلِ جہنم بھی دوزخ میں باقی رہیں گے مگر یہ بقا موت سے بھی بدتر ہے: کَمَاقَالَ اللہُ تَعَالٰی: لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی؎ نہ جہنم میں مریں گے نہ زندہ رہیں گے، موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوں گے۔ وَقَالَ تَعَالٰی: وَ یَاۡتِیۡہِ الۡمَوۡتُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ مَا ہُوَ بِمَیِّتٍ؎ ------------------------------