معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
آپ نے ہم کو دعا کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے مانگیں، اگر آپ کا حکم نہ ہوتا تو ہماری کیا مجال تھی کہ ہم آپ کے سامنے لب کھول سکتے۔ چوں دعا ما امر کردی اے عجاب ایں دعائے خویش را کن مستجاب جب آپ ہی نے ہم کو دعا کا حکم فرمایا ہے اے بے نظیر! تو اپنے اس مامور دعا کو آپ ہی قبول فرمائیے۔ یعنی بوجہ آپ کے حکم دینے کے یہ دعا آپ کی مطلوب ہے پس اپنی مطلوب کو رد نہ فرمائیے اور قبول فرمائیے۔ ز آب دیدہ بندۂ بے دید را سبزۂ بخش و نباتے زیں چرا میرے آنسوؤں سے اس کورِ باطن کو بینائی کا نور اور قلب کی سیرابی عطا فرمائیے۔ ور نماند آب آبم دہ ز عین ہمچو عینین نبی ہطالتین اور اگر آنسو ہمارے خشک ہیں تو آپ ہم کو رونے کے لیے آنسو عطا فرمائیے جس طرح سے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے موسلادھار رونے والی آنکھیں مانگی ہیں۔ وہ دعا یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عَیْنَیْنِ ھَطَّالَتَیْنِ تَسْقِیَانِ الْقَلْبَ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ قَبْلَ اَنْ تَکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَّ الْاَضْرَاسُ جَمْرًا؎ اللہ والی آنکھوں کی پہلی صفت پیغمبر علیہ الصلوٰۃوالسلام عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہم آپ سے ایسی آنکھیں مانگتے ہیں جو ہطّالۃ ہوں۔ ھاطلۃ کے معنیٰ موسلادھار برسنے والی۔ غَیْمٌ ھَاطِلٌ ------------------------------