معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
لَا یُعَدْ ایں داد لَایُحصیٰ ز تو من کلیلم از بیانش شرم رو اے اللہ! آپ کی یہ عطائیں و الطاف ہمارے احاطہ اور شمار میں بھی نہیں آسکتے ہیں، میں آپ کے ان بے شمار احسانات کے بیان سے گونگا اور شرم رو ہوں۔ ہم طلب از تست ہم آں نیکوئی ما کئم اول توئی آخر توئی ہماری یہ طلب بھی آپ ہی کی طرف سے ہے اور یہ بھلائیاں بھی آپ ہی کی توفیق سے ہیں، ہماری کیا حقیقت ہے ابتدا اور انتہا سب آپ ہی ہیں۔ کردگارا توبہ کردم زیں شتاب چوں تو در بستی تو کن ہم فتح باب اے اللہ! توبہ کی میں نے اس سے جلد۔ جب آپ ہی نے دروازہ بند کیاہے تو آپ ہی اپنی رحمت سے کھول دیجیے۔ در عدم ما را چہ استحقاق بود تا چنیں عقلے و جانے رو نمود جب ہم معدوم تھے تو ہم نے کیا ایسا عمل کیا تھا جس سے ہمارا کوئی استحقاق ثابت ہوتا یعنی بدون استحقاق آپ کی محض رحمت نے عقل و جان کی نعمت عطا کی۔ اے بکردہ یار ہر اغیار را اے بدادہ خلعتِ گل خار را اے اللہ! آپ کے کرم نے اغیار(کفار) کو دولتِ ایمان دے کر یاربنا لیا گویا کہ خار ( کانٹا) کو آپ نے خلعتِ گل عطا فرمادی۔ ایں دعا تو امر کردی ز ابتدا ورنہ خاکی را چہ زہرہ ایں ندا