معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اے کریم عفو کرنے میں! اور اے ہمیشہ زندہ رہنے والے! اور اے بہت بھلائی کرنے والے! اور اے بے مثل سلطان! اوّلم ایں جزر و مد از تو رسید ورنہ ساکن بود ایں بحر اے مجید اے رب! ہمارے قلب کے سمندر میں خواہشات کا مد و جزر(جوار بھاٹا) آپ ہی کی طرف سے امتحان کے لیے ہوتاہے ورنہ جب ہم صرف خاک تھے تو یہ سمندر خواہشات کا بھی ساکن تھا۔ اشارہ ہے اس آیت کی طرف: فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ؎ نفس کے اندر شرو خیر دونوں تقاضے اور مادے حق تعالیٰ نے رکھ دیے اور فجور ( مادۂ شر) کومقدم فرماکر یہ بتادیا کہ حمامِ تقویٰ کے حصول کا یہی مادۂ فجور ہی ایندھن ہے کیوں کہ اگر برے تقاضے ہی نہ ہوتے تو کیسے پتا چلتا کہ یہ شخص متقی ہے۔ تقویٰ کی تعریف یہی ہے کہ جب برا تقاضا دل میں پیدا ہو تو اس کے مقتضا پر خدا کے خوف سے عمل نہ کرے، اب اگر تقاضے ہی نہ ہوتے تو مجاہدہ کس بات میں ہوتااور کس پرچے میں امتحان ہوتا۔ پس مختلف معاصی کے مختلف تقاضے آخرت کے امتحانات کے مختلف پرچے ہیں اور دنیا امتحان گاہ ہے۔ ابتلایم می کنی آہ الغیاث اے ذکور از ابتلایت چوں اناث اے رب ! کیا آپ میرا امتحان کریں گے آہ فریاد ہے کہ ہم اس قابل نہیں اے اللہ! آپ کے امتحان سے بڑے بڑے مدعیانِ ہمت جو ذکور یعنی مردِ طریق اپنے کو سمجھتے تھے مثل مؤنث ثابت ہوئے یعنی آپ کے امتحان سے ان کے عزائم و کوہِ ہمت ریزہ ریزہ ہوگئے ؎ تا بکے ایں ابتلا یا رب مکن مذہبے ام بخش و دہ مذہب مکن ------------------------------