معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اس پر قہر نازل فرماتے ہیں تو اس کو دنیائے فانی بہت ہی حسین اور پائیدار نظرآتی ہے۔ قطرۂ علم است اندر جانِ من وا رہانش از ہویٰ و از خاکِ تن میری جان میں علم کا جو قطرہ آپ نے بخشا ہے اس کو ہمارے رذائل اور خبائثِ اعمال کے ظلمات سے پاک فرمادیجیے تاکہ اس کا نورِصافی ہم کو مفید ہوسکے۔ گر تو خواہی آتش آبِ خوش شود ور نخواہی آب ہم آتش شود اگر آپ چاہیں تو آگ ٹھنڈا پانی ہوجاوے اور اگر نہ چاہیں تو پانی بھی آپ کے حکم سے آگ ہوجاوے۔ کوہ و دریا جملہ در فرمانِ تست آب و آتش اے خداوند آنِ تست پہاڑ و دریا اے خدا! سب تیرے زیرِ فرمان ہیں اور پانی و آگ سب آپ کی شانوں کا ظہور ہیں ۔ در عدم کے بود ما را خود طلب بے سبب کردی عطاہائے عجب حالتِ عدم میں ہمارے پاس زبانِ طلب نہ تھی مگر بدون طلب آپ نے عجیب عطائیں ہم پر مبذول فرمائیں۔ جان و ناں دادی و عمرِ جاوداں سائرِ نعمت کہ ناید در بیاں آپ نے جان اور روٹی اور عمر ِجاوداں بخشی اور تمام نعمتیں کہ جو ہم بیان نہیں کرسکتے۔ اے خدا اے فضلِ تو حاجت روا با تو یادِ ہیچ کس نہ بُوَد روا