معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہمہ وقت ہمارے پاؤں گناہوں کے جالوں میں پھنسے ہوئے ہیں اگرچہ ہم میں سے ہر ایک باز اور سیمرغ ہی کیوں نہ ہو۔ می رہانی ہر دمے ما را و باز سوئے دامے می رویم اے بے نیاز آپ تو ہم کو ہر وقت گناہوں سے چھڑاتے رہتے ہیں اور ہم پھر ان ہی جالوں کی طرف جاتے ہیں اے بے نیاز۔ ما دریں انبارِ گندم می کنیم گندم جمع آمدہ گم می کنیم ہم اس جہان میں نیکیوں کا گندم جمع کرتے ہیں اور جمع شدہ کو پھر گم کر دیتے ہیں۔ می نیندیشیم ما جمع و حوش کیں خلل در گندم ست از مکرِ موش ہم نہیں سوچتے ہیں کہ یہ نقصان گندم کے ذخیرے کا چوہے کے مکر سے ہے۔ موش تا انبارِ ما حفرہ زدہ ست و ز فنش انبارِ ما خالی شدہ ست نفس کے چوہے نے جب سے ہماری نیکیوں کے ذخیرے میں سوراخ کرلیاہے تو اس کے اس فن سے ہمارا ذخیرہ خالی ہوگیا ہے ۔ اول اے جاں دفعِ شرِّ موش کن بعد ازیں انبارِ گندم کوش کن اے میری جان! پہلے چوہے کی شرارت اور چوری کو دفع کر پھر گندم کا ذخیرہ کرنے کی سعی اور محنت کر۔ چوں عنایاتت شود با ما مقیم کے بُوَد بیمِ ازاں دزدِ لئیم