معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اس لیے کہ منطق کا مسئلہ ہے کہ :لَاتَشْکِیْکَ فِی الْماھِیَاتِتو ذات میں زیادتی کمی نہیں ہوتی، بلکہ زیادتی و کمی صفات میں ہوتی ہے۔ ذات من حیث الذات میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی یہ تو کل ذوات کے لیے تھاکہ کسی میں کمی و زیادتی نہیں ہوتی ، آگے خاص ذات حق کی نسبت فرماتے ہیں ؎ حق ز ایجادِ جہاں افزوں نشد انچہ اول آں نبود اکنوں نشد لیک افزوں شد اثر ز یجادِ خلق درمیانِ ایں دو افزوں نیست فرق ہست افزونی اثر اظہارِ او تا پدید آید صفات و کارِ او حق تعالیٰ نے تمام عالم کو پیدا کیا اس سے ذاتِ حق میں نعوذ باللہ! کوئی زیادتی نہیں ہوئی اور کوئی بات اس ایجادِ خلق سے ایسی پیدانہیں ہوئی جو پہلے نہ تھی بلکہ اَلْاٰن کَمَا کَانَ ہاں ایجادِ خلق سے اثر ظاہر ہوا یعنی صفاتِ حق کا ظہور ہوگیا اور ظہورِاثر و صفات میں اور زیادتی فی الذات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ پس ایجادِ خلق سے مقصود کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ؎ تاکہ عالم کو دیکھ کر وجودِ صانع پر استدلال کریں اور پھر معرفت حاصل ہو۔ بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی وَ عَوْنِہٖ حصۂ دوم تمام ہوا رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ؎ (کمترینِ خلائق) محمد اخترؔ عفا اللہ عنہ ۴۔ جی،۱۲؍۱ ناظم آباد۔ کراچی ------------------------------