معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
یومنوں بالغیب می باید مرا تا بہ بستم روزنِ فانی سرا چوں کہ ظہور و مشاہدۂ اسرار سے غفلت کا بالکلیہ ارتفاع ہوجاتا اور امورِ معاش کا مبنیٰ من وجہٍ غفلت پر ہے جیساکہ دوسرے مقام پرمولانا نے فرمایاکہ ؎ استن ایں عالم اے جاں غفلت است پس بالکل مشاہدۂ امورِ غیب سے انتظام ِمعاش مختل ہوجاتا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو کچھ میں نے مشاہدات علمِ یقین حاصل کیے ہیں امورِ غیب کے متعلق(یعنی دوزخ کا درد ناک عذاب وغیرہ) اگر تم کو بھی اتناہی علمِ یقین حاصل ہوجاوے تو تم لوگ ہنستے کم اور روتے زیادہ اور سینہ کوٹتے ہوئے پہاڑوں کی طرف نکل جاتے ۔ پس بعض بے عقل انسان یہ تمنا کرتے ہیں کہ اگر ہم پر عالمِ غیب ظاہر کردیا جائے تو ہم لوگ دوزخ دیکھنے کے بعد پھر گناہ پر کیوں جری ہوتے اس سوال اور اس تمنا کا خلافِ عقل ہونا ظاہر ہے۔ عالمِ غیب کو آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی طالبعلم کہے کہ امتحان کا پرچہ ہم کو بتادیا جاوے۔ حالاں کہ دنیا کے تمام عقلاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پرچہ آؤٹ نہ ہونا چاہیے ورنہ پھر امتحان، امتحان نہ رہے گا اور اہل اور نااہل محنتی اور غافل کا فرق ظاہر نہ ہوگا۔ نیز محنت کرنے والوں پر ظلم ہوگا کہ بے محنت طالب علم بھی اس کے برابر ہوجاوے گا اور پاس ہوکر ہمسری کا دعویٰ کرے گا اور اس عالم کا عالمِ امتحان ہونا قرآن سے منصوص ہے۔ چناں چہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا وَ اِنَّا لَجٰعِلُوۡنَ مَا عَلَیۡہَا صَعِیۡدًا جُرُزًا ؎ ------------------------------