معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
پس بگفتندش کہ تو بر تختِ شاہ چوں ہمیں جوئی ملاقات از الٰہ پس انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ تو شاہی تخت پر حق تعالیٰ کی ملاقات کو کیوں تلاش کرتاہے؟ یہ کہہ کر وہ رجالِ غیب تو غائب ہوگئے لیکن بادشاہ کے دل پر ایسی چوٹ لگ گئی کہ ملک وسلطنت سے دل سرد ہوگیا۔ ملک را برہم زن ادہم و ارزود تا بیابی ہمچو او ملکِ خلود مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت فرماتے ہیں کہ اے لوگو! سلطنت کو مثل ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے جلد خیر باد کہہ دوتاکہ ان کی طرح تم بھی دائمی سلطنت یعنی سلطنتِ باطنی سے مشرف ہوجاؤ۔ الغرض عشقِ حقیقی نے حضرت ابراہیم بن ادہم کو ترکِ سلطنت پر مجبور کردیا اور عشق کائنات کی تمام لذّتوں سے دل کو بے زار کردیتاہے۔ وَلَنِعْمَ مَاقَالَ صَاحِبُ قَصِیْدَۃِ الْبُرْدَۃِ ؎ نَعَمْ سَرٰی طَیْفُ مَنْ اَھْوٰی فَاَرَّقَنِیْ وَالْحُبُّ یَعْتَرِضُ اللَّذَّاتِ بِالْاَلَمٖ ہاں رات مجھے جب اپنے محبوب کا خیال آگیا تو میری نیند اڑگئی اور محبت تمام لذتوں کو رنج والم سے تبدیل کردیتی ہے۔ آخر کار آدھی رات کو بادشاہ اٹھا، کمبل اوڑھا اور اپنی سلطنت سے نکل پڑا۔ سوزِ عشق کی ایک آہ نے زندانِ سلطنت کو پھونک دیا اور دستِ جنوں کی ایک ضرب نے گریبانِ ہوش کے پرزے اڑادیے ؎ کھینچی جو ایک آہ تو زنداں نہیں رہا مارا جو ایک ہاتھ گریباں نہیں رہا