معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
عادتاً ہر سالک کو بھی اس کے مجاہدات کے صلے میں من جانب اللہ جذب نصیب ہوجاتاہے کیوں کہ بغیر عنایت ویاریٔ حق کے کسی کا کام نہیں بنتا۔ جذب اور سلوک ہر دو طریق بہر حال فضل ہی سے موصل الی المقصود اور مثمرللقرب ہوتے ہیں۔ ذرّۂ سایہ عنایت بہتر است از ہزاراں کوششِ طاعت پرست حق تعالیٰ کی عنایت کا ایک ذرّہ سایہ طاعت پر ناز کرنے والے کی ہزاروں کوششوں سے افضل ہے۔ جب حق تعالیٰ کی رحمت و عنایت سلطان ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف متوجّہ ہوئی تو بغیر ریاضت ومجاہدے کے شاہِ بلخ کا کام بن گیا۔ بلخ کی سلطنت تو چھڑادی لیکن ایک ایسی باطنی سلطنت عطا فرمادی کہ جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بلکہ خزائن السّمٰوٰت والارض بے حقیقت ہوگئے۔ شاہ کو خودبھی پتا نہ تھا کہ سلطنت کاسر سبز باغ آتشِ عشقِ حقیقی کی نذر ہونے والاہے، کوڑیاں چھن کر جواہرات عطا ہونے والے ہیں اور خارستان سوختہ ہوکرچمنستانِ بے خزاں بننے والاہے۔ جب کسی کے دن بھلے ہوتے ہیں تو یہی ہوتاہے ؎ سن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ رات کو بالا خانے پر سورہے تھے کہ اچانک پاؤں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ گھبرائے کہ رات کے وقت شاہی بالاخانے پر کون لوگ ایسی جرأت کرسکتے ہیں۔ دریافت فرمایا کہ اے واردینِ کرام! آپ کون لوگ ہیں؟یہ فرشتے تھے جو حق تعالیٰ کی طرف سے غفلت زدہ دل پر چوٹ لگانے آئے تھے۔ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم یہاں اپنا اونٹ تلاش کررہے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کہ حیرت ہے کہ شاہی بالاخانے پر اونٹ تلاش کیا جارہاہے، ان حضرات نے جواب دیا کہ ہمیں اس سے زیادہ حیرت آپ پر ہے کہ اس ناز پروری اور عیش میں خداکو تلاش کیا جارہاہے۔