معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جیساکہ عارفین اپنی جانوں پرمجاہدات کا غم جھیل کرجسم کے فانی چراغ کے گل ہونے سے پہلے ہی دل کا چراغ دائمی و غیر فانی روشن کرلیتے ہیں یعنی دل میں کثرتِ ذکر اللہ، صحبتِ اہل اللہ ،فکر فی خلق اللہ سے حق تعالیٰ کی محبت کا چراغ روشن کرلیتے ہیں ؎ ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما جو دل حق تعالیٰ کی محبت سے زندہ ہوجاتاہے وہ کبھی نہیں مرتایعنی اس شمعِ محبت کا دوام تاریخِ عالم پر ثبت ہوجاتاہے ؎ اگر گیتی سراسر باد گیرد چراغِ مقبلاں ہرگز نمیرد اگرپوری دنیا تیز آندھی سے بھر جائے پھر بھی مقبولانِ الٰہی کا چراغ گل نہیں ہوسکتا۔ تاکہ روزے ایں بمیرد ناگہاں پیشِ چشمِ خود نہد او شمعِ جاں عارفین اپنی زندگی کے چراغ سے بذریعۂ اعمالِ صالحہ دل میں دوسرا چراغ کیوں روشن کرتے ہیں؟تاکہ قضائے الٰہی سے اگراچانک یہ چراغ گل ہوجاوے یعنی موت آجائے توروح کے اندر تعلق مع اللہ کا چراغ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ لیں کیوں کہ فنا جسم کو فناروح لازم نہیں اور اس وقت یہ دائمی و غیر فانی چراغ ہی روح کے لیے باعث ِ سکون ومسرت ہوتاہے۔ بہر ایں گفت آں رسولِ خوش پیام رمزِ موتوا قبل موتٍ اے کرام اسی سبب سے رسولِ خوش پیام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مرنے سے پہلے مرجاؤ یعنی جس طرح مردہ دنیا سے بے تعلق ہوتا ہے ، اسی طرح تم زندگی ہی میں اپنی جان کو تمام ماسوا اللہ سے بے تعلّق رکھو یعنی دل بیار دست بکار۔ ہروقت دل کا حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہونااو ر دنیا کے کام کرتے رہنا یہ کس طرح ممکن ہے؟ حضرت تھانوی