معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اللہ اکبر! جب کافر کوحقیرسمجھنے سے منع کیاگیاہے توگنہ گار مسلمانوں کوحقیر سمجھنا کس درجہ بُراہوگا۔ البتہ کفارکے کفر سے اور فاسقوں کی نافرمانیوں سے بغض ہونا مطلوب ہے بلکہ ایمان کی نشانی ہے۔ قال اللہ تعالیٰ: وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؎ اور کفر وفسوق وعصیان سے تم کونفرت دے دی پس ان افعال سے نفرت کامطلوب ہونامنصوص ہوا۔ چہ خبرداری ز ختمِ عمرِ او تا بگردانی از و یکبارہ رو کیا تو اس کافرکے خاتمہ بالکفر کی خبررکھتاہے کہ تجھے اس سے نفرت و حقارت جائز ہوجائے۔چوں کہ اصل اعتبار خاتمہ کاہے اس لیے کسی مؤمن کوموجودہ حال پر ناز وپندار درست نہیں کیوں کہ مرنے سے پہلے احتمال اس امرکابھی ہے کہ کسی نافرمانی کی نحوست سے یہ ایمان مبدل بہ کفر ہوجائے اور خاتمہ بالکفر کااحتمال ہوتے ہوئے نہ تواپنے ایمان پرناز درست ہے اور نہ کسی کافر کوحقیر سمجھنا درست ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ ایماں چو سلامت بلبِ گور بریم اَحْسَنْتُ بریں چستی و چالاکئ ما ترجمہ:جب ہم ایمان کوسلامتی سے قبر کے اندر لے جائیں اس وقت بے شک ہم اپنی چستی و چالاکی یعنی اعمالِ حسنہ واحوالِ محمودہ کی تعریف کریں گے۔ مرنے سے پہلے توخطرہ لگاہواہے کہ خاتمہ نہ جانے کس حال پرہوگا۔ پس اللہ والے مرنے سے پہلے کفارسے توباعتبارِانجام ومآل کے اور فساق مؤمنین سے باعتبارِحال کے اپنے کوحقیروذلیل وکمتر جانتے ہیں بلکہ جانوروں سے بھی ------------------------------