معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
خلقِ نیکو وصفِ انسانی بود آدمی با خلقِ بد حیواں شود اچھے اخلاق انسانیت کے اوصاف ہیں اور بداخلاق آدمی صرف جانور ہوتاہے۔ چوں شود اخلاق و اوصافِ نکو ہشت جنت خود توئی اے نیک خو اگر تیرے اخلاق پاکیزہ اور اچھے ہوجائیں(اورجوعادتاً بدون کسی پیرِکامل کے ممکن نہیں) تودنیاہی میں تجھے لطفِ جنت ملنے لگے۔ گر گرفتارِ صفاتِ بدشدی ہم تو دوزخ ہم عذابِ سرمدی اے مخاطب!اگرتونے اپنی اصلاح کسی شیخِ کامل سے نہ کرائی اوربرے اخلاق اور برے اعمال میں مبتلارہاتودنیاہی میں تجھے دوزخ کی کلفت اور بے چینی محسوس ہونے لگے گی۔ ہرکہ دارد در جہاں خلقِ نکو مخزنِ اسرارِ حق شد جانِ او جس شخص کے اندر اخلاقِ حسنہ دیکھوتوسمجھ لوکہ اس کی جان اسرارِعشقِ الٰہیہ کی حامل ہے۔ انچہ گفتم ہست از عین الیقین نے ز استدلال و تقلید ست ایں مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں جوکچھ کہتاہوں عین الیقین کے مقام سے کہتاہوں، میری باتیں محض عقلی دلائل اور تقلیدی نہیں ہیں، مولانا نے اس شعرمیں اپنا مقامِ قرب ومشاہدہ بیان کردیا۔ فائدہ : ذکرومجاہدہ اور صحبتِ شیخ کے فیضان سے جب قلب مصفّٰی و مجلّٰی ہوجاتا ہے تو عالمِ غیب کی باتوں کوسمجھنے کی خاص صلاحیت پیداہوجاتی ہے اور حق تعالیٰ کے ساتھ قلب کومعیتِ خاصہ عطاہوتی ہے اور اسی مشاہدۂ بصیرۃِ قلب کانام عین الیقین ہے ورنہ بصارت سے مشاہدہ مغیبات کااس عالم میں محال اور ممتنع ہے۔