معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہوتاہے تاکہ تجھے اپنی رائے و انانیت کے سبب قضائے حق زخم نہ لگادے۔ با قضا ہرکہ شبیخوں آورد سرنگوں آید ز خونِ خود خورد جوشخص کہ قضا سے جنگ کرتاہے وہ ذلیل ہوتاہے اور اپناہی خون اس کو پینا پڑتاہے۔ چوں قضا آید طبیب ابلہ شود ہر دوا در نفعِ خود گمرہ شود جب قضاآتی ہے تو طبیب بھی بے عقل ہوجاتاہے اورہردوابجائے مفید ہونے کے مضر ہوجاتی ہے۔ از قضا سر کنگبیں صفر افزود روغنِ بادام خشکی می نمود قضا سے سکنجبین جوصفراکاقاطع ہے صفراکوبڑھادیتاہے اور روغنِ بادام جو دافعِ خشکی ہے خشکی کو زیادہ کرتاہے۔ گر قضا صد بار قصدِ جاں کند ہم قضا جانت دہد درماں کند اگر قضا سومرتبہ جان کا قصد کرتی ہے تو قضاہی تجھے جان بھی عطاکرتی ہے اور درماں بھی کرتی ہے۔ رزق از وے جومجو از زید و عمرو مستی از وے جو مجو بنگ و خمر رزق اللہ تعالیٰ سے تلاش کر اور زید و عمرو سے مت بھیک مانگ۔ مستی اللہ تعالیٰ سے طلب کربھنگ اور شراب سے مت طلب کر۔ یعنی اس کی محبت میں لازوال کیف ہے ؎ ہیں ازو خواہید نے از غیرِ او آب دریم جومجو در خشک جو