معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
مثل حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حق تعالیٰ کے سامنے سررکھ دو اور خوش خوش تیغِ تسلیم کے سامنے گردن پیش کردو۔ اے جفائے او زِ دولت خوب تر و انتقامِ او ز جاں محبوب تر اے شخص! اس محبوبِ حقیقی کی جفادولت سے بہتر ہے اور اس کا انتقامِ عشق جان سے محبوب تر ہے یعنی اس کاکرم کبھی بصورتِ ستم ہوتاہے جیسے بیماری اور حزنِ اضطراری سے قرب میں ترقی ہونا پس اس حالت سے بھی گھبرانانہ چاہیے۔ عاشقم بر رنجِ خویش و دردِ خویش بہر خشنودیٔ شاہِ فردِ خویش اس محبوبِ حقیقی کی خوشنودی کے لیے میں اپنے رنج و درد پر بھی عاشق ہوں، یہ تسلیم و رضا ان کو محبوب ہے۔ فائدہ: مرادیہ ہے کہ شکایت و ناگواری نہیں البتہ اظہارِ عبدیت کے لیے دعائے عافیت کرنا منصوص اور دین کی اعلیٰ فہم ہے۔ اگر بعض اکابرنے دعابھی نہیں کی تو یہ فعل قابلِ تقلید نہیں، بس ان کو مغلوب الحال سمجھ کرمعذور سمجھاجاوے گا۔ عاشقم بر قہر بر لطفش بجد اے عجب من عاشقِ ایں ہر دو ضد میں اس محبوب کے لطف اور قہر دونوں پر عاشق ہوں۔اے لوگو! یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میں ہر دو ضد پر عاشق ہوں۔ فائدہ: یہ اولیائے کرام ہی کا پتّہ ہے کہ دوکیفیاتِ متضادہ پرعاشق ہوں۔ مردہ باید بود پیشِ امرِ حق تا نہ آید زخم از ربُّ الفلق حق تعالیٰ کے حکم کے سامنے سراپاغلام بن جاؤجس طرح مردہ زندہ کے ہاتھ میں