معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
آزمودم عقلِ دور اندیش را بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را میں نے عقلِ دور اندیش کو بہت آزمایا مگر اس سے منزل نہ ملی اس کے بعداپنے کو دیوانہ بنالیا ؎ یا تو خرد کو ہوش کو مستی و بیخودی سکھا یا نہ کسی کو ساتھ لے اس کے حریمِ ناز میں کہاں خرد ہے کہاں ہے نظام کار اس کا یہ پوچھتی ہے تری نرگس خمار آلود ہیں منہ بر پایم آں زنجیر را کہ دریدیم سلسلہ تدبیر را ہاں خبرداراے لوگو! مجھ دیوانہ کے پاؤں میں علائقِ دنیا کی زنجیر نہ ڈالوکہ میں نے اسباب و تدابیر کے پردوں سے ماوراء مسبّبِ حقیقی اور مدبرِّ حقیقی سے رابطہ کرلیاہے۔ نوٹ:۔ مولاناکی مراد انہماک فی الدنیا کے اس درجہ سے بچانا ہے جو آخرت کو تباہ کرنے والاہے ورنہ اجمالی طلب کے ساتھ بقدرِضرورت دنیا کا کسب تو مطلوب اور مامورِشرعی ہے۔ اَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ؎ البتہ اگر حقوقِ واجبہ کسی کے ذمےّ نہ ہوں تو وہ مستثنیٰ ہے۔ زیں خرد جاہل ہمی باید شدن دست در دیوانگی باید زدن اس خرد سے جو آخرت کے لیے مضر ہورہی ہے جاہل ہی رہنا اچھاہے اور ہاتھ دیوانگی کی دولت پرمارنا چاہیے۔ ------------------------------