معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اے دریغا اشکِ من دریابدے تا نثارِ دلبرِ زیبا شدے اے کاش کہ ہمارے آنسو مثلِ دریاکے کثیرمقدارمیں جاری ہوجاتے تاکہ ان کو محبوبِ حقیقی پر فداکردیتا۔ نالم اورا نالہا خوش آیدش از دو عالم نالہ و غم بایدش میں اس محبوبِ حقیقی کے لیے روتاہوں کہ ان کو ہمارانالہ اچھامعلوم ہوتاہے اور دونوں عالم سے وہ نالہ وغم عشق ہی چاہتے ہیں۔ آخر ہر گریۂ ماخندہ ایست مردِ آخر بیں مبارک بندہ ایست ہمارے ہرگریہ کاانجام مسرت ہے اور جوانجام بیں ہوتاہے وہ مبارک بندہ ہے ۔ ہر کجا آبِ رواں خضرۃ بود ہرکجا اشکِ رواں رحمت بود جہاں بھی پانی جاری دیکھوگے سبزہ موجود ہوگااسی طرح جہاں آنسو رواں ہوتے ہیں وہیں رحمت ہوتی ہے۔ اشک کاں از بہرِ او بارند خلق گوہر ست و اشک پندارند خلق جو آنسوحق تعالیٰ کے لیے مخلوق بہاتی ہے وہ آنسو موتی ہیں اور مخلوق آنسو سمجھتی ہے۔ کہ برابر می کند شاہِ مجید اشک را در وزن با خونِ شہید کیوں کہ حق تعالیٰ گناہ گاروں کے آنسوؤں کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتے ہیں۔