معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جب حق تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہم پراپنافضل فرماویں توہم کو گریہ وزاری کی طرف متوجہ اور مائل کردیتے ہیں۔ ایں دلم باغست و چشمم ابروش ابر گرید باغ خندد شاد و خوش یہ ہمارے دل مثلِ باغ کے ہیں اور آنکھ مثلِ ابرکے ہے اورابرکے رونے ہی سے باغ ہرابھراہوتاہے۔ زا برِ گریاں باغ سبز و تر شود زانکہ شمع از گریہ روشن تر شود ابرکے رونے ہی سے باغ ہرابھراہوتاہے جیساکہ موم بتی جب پگھلتی ہے تب ہی روشن ہوتی ہے۔ تا نہ گرید ابر کے خندد چمن تا نہ گرید طفل کے جوشد لبن جب تک ابر نہیں روتاہے چمن کب ہنستاہے یعنی شاداب ہوتاہے اورجب تک بچہ روتانہیں ہے ماں کادودھ کب جوش کرتاہے؟ طفل یک روزہ ہمی داند طریق کہ بگریم تا رسد دایہ شفیق ایک دن کا بچہ بھی یہ راستہ جانتاہے کہ ہم جب تک نہیں روئیں گے دودھ پلانے والی دایہ مہربان ہمارے پاس نہ آئے گی۔ اے خوشا چشمے کہ آں گریانِ او ست وے ہمایوں دل کہ آں بریانِ اوست کیا ہی خوش بخت و مبارک وہ آنکھیں ہیں جو محبوبِ حقیقی کی یاد میں رونے والی ہیں اور کیاہی مبارک وہ دل ہے جو اس محبوبِ حقیقی کے عشق سے تڑپ رہاہے۔