معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
اللہ اللہ!یہ نام اللہ کیسا شیریں نام ہے کہ اس سے تو میری جان شیروشکرہوئی جاتی ہے۔ گفت ابلیسش کہ اے بسیار گو ایں ہمہ اللہ را لبیک کو ایک دن صوفی ذاکرِحق سے ابلیس نے کہا کہ اے بہت ذکر اللہ کرنے والے! تجھے کبھی اللہ سے بھی کوئی جواب ملاہے؟۔ گفت آں اللہ تو لبیکِ ما ست آں نیازِ دردو سوزت پیکِ ما ست اس صوفی کو غیب سے آوازآئی کہ اے شخص! ایک بار اللہ کے بعد جب تجھے دوسری مرتبہ میں اللہ کہنے کی توفیق دیتاہوں تویہی میرا لبیک ہے کیوں کہ اگر پہلا اللہ تیراقبول نہ ہوتاتودوسرا اللہ تیری زبان سے نہ نکلتا۔ ترس و عشقِ تو کمند شوقِ ماست زیرِ ہر لبیکِ تو لبیکہا ست اے مخاطب! تیرا یہ عشق اورتیرایہ خوف جو میرے ساتھ تجھے وابستہ کیے ہوئے ہے یہ دراصل میری ہی عطاہے یعنی یہ تیری محبت میری ہی محبت کا پَرتوہے، تیرے ہرلبیک کے اندر میری طرف سے بہت سے لبیک موجود ہیں۔ ایں قدر گفتیم باقی فکر کن فکر اگر جامد بُود رَو ذکر کُن اس قدر تشریح کے بعد بھی اگر تجھے ابھی فہم نہیں عطاہوئی تومیری باتوں میں غوروفکر کراوراگرتیری فکرہی جامد ہے توجاذکرشروع کرکہ ذکر کی گرمی سے فکرکاجمود ختم ہوجاوے گا۔ ذکر آرد فکر را در اہتزاز ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز