معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جل رہے تھے، ہم کو اپنے حکم اذۡکُرُوا اللہَ سے نور کی طرف طلب فرمالیا یعنی جس طرح دوزخ کی آگ فریادکرے گی کہ اے مؤمن! جلد مجھ پرسے گزرجاکہ تیرا نور میری آگ کو بجھائے دیتاہے اسی طرح جو لوگ دنیا میں بری خواہشات کی آگ میں جل رہے ہیں جب وہ کسی اللہ والے سے تعلق مشورے کاقائم کرکے ذکر شروع کردیتے ہیں تو اس نارِ شہوت سے نجات پاجاتے ہیں۔ نارِ شہوت چہ کشد نورِ خدا نورِ ابراہیم را ساز ا و ستا شہوت کی آگ کو کون ختم کرسکتاہے سوائے نورِ خداکے پس اس نورکو توبھی حاصل کرلے کہ اسی کی برکت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتشِ نمرود ٹھنڈی ہوئی تھی۔ ذکرِ حق پاک ست چوں پاکی رسید رخت بر بند و بروں آید پلید ذکرِ حق پاک ہے اور جب یہ نامِ پاک تولے گا تو تیری ناپاکی راہِ فراراختیار کرنے کے لیے بستر باندھ لے گی۔ می گریزد ضدہا از ضدہا شب گریزد چوں برافروز و ضیا ہرشے اپنی ضد سے بھاگتی ہے جس طرح شب بھاگتی ہے جبب دن روشن ہوجاتا ہے۔ چوں در آید نامِ پاک اندر دہاں نے پلیدی ماند و نے آں دہاں جب اللہ تعالیٰ کانامِ پاک تیرے منہ سے جاری ہوگااسی وقت نہ پلیدی باقی رہے گی اور نہ وہ ناپاک منہ ہی باقی رہے گا یعنی اس پاک نام کی برکت سے تیرامنہ بھی پاک ہوجاوے گا۔ اللہ اللہ ایں چہ شیرین ست نام شیر و شکر می شود جانم تمام