معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
خالقِ کائنات سے رشتہ جوڑتاکہ تو اپنے صحیح مقصد میں مصروف ہوکر دونوں جہان کی دولت سے مالا مال ہوجاوے۔ ہست انساں مرکزِ دورِ جہاں نیست بے انساں مدارِ آسماں یہ کائنات انسانِ کامل ہی کے دم سے قائم ہے، جب روئے زمین پر کوئی اللہ،اللہ کرنے والا نہ رہے گا تو افلاک اپنی گردش سے محروم کردیے جائیں گے اورانھیں ریزہ ریزہ کردیاجاوے گا اور قیامت قائم ہوجاوے گی۔ از کمالِ قدرتش ہیں بے شکے کو دو عالم می نماید در یکے یہ کمالِ قدرتِ الٰہیہ تو یکھو کہ بلا شبہ دونوں جہان کا نمونہ بنادیا ایک انسان کو۔ یعنی انسانِ کامل ہی مظہرِ ہر دوجہان اور مقصدِ ہردوجہاں ہے، اس جہان کو اس کے لیے عالمِ عمل بنادیا اوراس جہان کو اس کے لیے عالمِ جزا بنادیا۔ پس دونوں جہان اسی کے لیے بنائے گئے۔ لامکاں اندر مکاں کردہ مکاں بے نشاں گشتہ مقید در نشاں عجیب قدرت ہے اس کی کہ خود لامکان ہے مگر ہمارے قلوب اور ارواح کو جو مکانی ہیں کس طرح اپنا تعلقِ خاص عطا فرمارکھا ہے اور خود بے نشان ہیں اور با نشانوں کوکس طرح اپنا تعلق بخشا ہواہے۔ صد ہزاراں بحر در قطرہ نہاں ذرّۂ گشتہ جہاں اندر جہاں لاکھوں سمندر ایک قطرے میں مخفی ہوگئے اور ایک ذرہ اپنے اندر کائنات در کائنات رکھتاہے۔